صادق باجوہ
ہجر توں کی گو د میں پلتے رہے
تھے وفاؤں کے دئیے جلتے رہے
داغِ ہجرت سے ملی تسکین جاں
حسرتوں میں لوگ کچھ جلتے رہے
جن کو دعویٰ تھا رہیں گے ساتھ ساتھ
وقتِ رخصت ہاتھ ہی ملتے ر ہے
مو جزن گم گُشتہ منزل کی لگن
کارواں در کارواں چلتے رہے
اک ضیا پا شی محیطِ بز م تھی
داغ ہا ئے دل جہاں جلتے رہے
اقتدار و ثروت و سطوت سبھی
عمرِ رفتہ کی طرح ڈھلتے رہے
دیکھنا صاؔدق ! مآ لِ دو ستاں
نارِ بغض و کیں میں جو جلتے رہے