شاذ تمکنت(مرحوم)
اِک حرفِ تمنّا ہوں، بڑی دیر سے چُپ ہوں
کب تک مرے مولا
اے دِل کے مکیں دیکھ یہ دل ٹوٹ نہ جائے
کاسہ مرے ہاتھوں سے کہیں چھوٹ نہ جائے
مَیں آس کا بندہ ہوں بڑی دیر سے چُپ ہوں
کب تک مرے مولا
سر تا بقدم اپنی مرادوں کو سنبھالے
جاتے ہوئے تکتے ہیں مجھے قافلہ والے
میں لالۂ صحرا ہوں بڑی دیر سے چُپ ہوں
کب تک مِرے مولا
اے دستِ طلب کیوں تری باری نہیں آئی
کہنامِرے آقا کی سواری نہیں آئی
تصویروتماشا ہوں بڑی دیر سے چُپ ہوں
کب تک مرے مولا
ممکن نہیں یہ آنکھ تِری دید کو ترسے
ہررنگ میں دیکھوں تجھے دیوار سے، دَر سے
میں توترارستہ ہوں بڑی دیرسے چُپ ہوں
کب تک مرے مولا
اے کاشفِ اسرارِ نہانی تِرے صَدقے
اب شاذ کو دے حُکمِ روانی تِرے صدقے
ٹھہراہؤا دریا ہُوں بڑی دیر سے چُپ ہوں
کب تک مرے مولا