جان عالم
جنبش نگۂ یار کی تلوار میں آوے
مرنے کے لئے بیٹھا ہوں تیار میں ،آوے
گردش میں ہیں دن رات مرے ، دیکھ کے مجھ کو
کیونکر فلکِ پیر نہ رفتار میں آوے
پیمانۂ وحشت کو نہ میں ہاتھ لگاؤں
تجھ آنکھ کی مستی بھی تو مقدار میں آوے
اب آوے تو آوے جو نہ آوے تو نہ آوے
اب سانس تو لگتا نہیں بیمار میں آوے
چکرائے ہے رخسار میں آکر تری مسکان
جوں کوئی سفینہ کسی منجدھار میں آوے
بجھنا ہو جسے شعلۂ رخسار سے اُلجھے
جلنا ہو جسے سایۂ دیوار میں آوے
بازار تو بازار ہے ، بازار کا کیا ہے
بک جائے پیمبر بھی جو بازار میں آوے