جان عالم (مانسہرہ)
آئی نہ آئینے کے وہ پھر روبرو کبھی
دیکھا تھا اُس نے ایسا کہاں خوبرو کبھی
اُمیدوارِ لمسِ تمنائے یار ہوں
اے پیکرِ خیال مجھے تُو بھی چھو کبھی
پھر دیکھتا کبھی نہ کسی اور کی طرف
اک بار دیکھ لیتا اگر خود کو تُو کبھی
اے ساکنانِ کوئے ملامت کوئی خبر
لیتا ہے میرا نام بھی کیا تُرش رو کبھی
بویا ہو جس کو خاکِ سرشکِ ملیح میں
پائے گا کیا وہ نخلِ تمنا نمو کبھی
دامن دریدگی سے جو فرصت ملے بہار!
چاکِ قبائے گُل کو بھی کرنا رفو کبھی
کھائے فریب ،اشک پیئے ، سیر نہ ہوئے
ہے پیاس بھی عجیب ، عجب ہے یہ بھوک بھی
کرتا نہیں ہے یاد جو بھولے سے بھی مجھے
آتا نہیں ہے یاد وہ مجھ کو کبھو کبھی