نور منیری
بادل جو گرجتے ہیں تو برسات بھی ہو گی
اُس جانِ بہاراں سے ملاقات بھی ہو گی
اِس شہرِ نگاراں کے ہر اک موڑ پہ یارو
زلفوں کی گھنی چھاؤں ،سیّہ رات بھی ہو گی
جو مسئلہ در پیش ہے،اُس باب میں تم سے
جب ہو گی ملاقات تو وہ بات بھی ہو گی
یہ عشق کا دستور ہے ، محتاط ہی رہنا
ہو گا جو ظفریاب ،اسے مات بھی ہو گی
شمشیر برہنہ ہے ترے ہاتھ میں لیکن
بدنام مِرے خوں سے تری ذات بھی ہوگی
پرکھو گے مِرے شعر کی گہرائی اگر تم
کہہ دو گے کہ انمول یہ سوغات بھی ہو گی
اُلجھا نہ کرو نورؔ زمانے میں کسی سے
یہ بات کبھی باعثِ آفات بھی ہو گی