نور منیری(پونہ)
دشمنوں کو پتہ نہیں ہے کیا
میرے سر پر خدا نہیں ہے کیا
خونِ انساں بہا، نہیں ہے کیا
آج بھی کربلا نہیں ہے کیا
کس لیے مطمئن نہیں ہے وہ
شہر سارا جلا نہیں ہے کیا
وہ جو قاتل تھے اب مسیحا ہیں
ظلم کی انتہا نہیں ہے کیا
دوش ہم دوسروں کو دیتے ہیں
کچھ ہماری خطا نہیں ہے کیا
لوگ پتھر تو پوجتے ہیں مگر
آدمی، دیوتا نہیں ہے کیا
پئے نیلام آج منڈی میں
کھوٹا سکّہ ،کھرا نہیں ہے کیا
ہمنوا ہو تو پاس آجاؤ
یہ تقاضہ، بجا نہیں ہے کیا
غیر سے کیوں سوال کرتے ہو
بابِ رحمت کھلا نہیں ہے کیا
زہر آلود ہے فضا کیوں نورؔ
کوئی تازہ ہوا نہیں ہے کیا