ادریس بابر
دھُوم گم گشتہ خزانوں کی مچاتا پھرے کون
اُن زمانوں میں جو تھے ہی نہیں، جاتا پھرے کون
باغ میں اُن سے ملاقات کا امکان بھی ہے
صرف پھولوں کیلئے لوٹ کے آتا پھرے کون
سیکھ رکھے ہیں پرندوں نے سب اشجار کے گیت
آج کل مُوڈ ہی ایسا ہے کہ گاتا پھرے کون
میں تو کہتا ہوں یہیں غار میں رہ لو جب تک ۔۔
وقت پوچھو ہی نہیں، شہر بساتا پھرے کون
بھیس بدلے ہوئے اک شخص کی خاطر ہے یہ سب
ہم فقیروں کے بھلا ناز اُٹھاتا پھرے کون
خواب، یعنی یہ شب روز ، جسے چاہئے ہوں
آ کے لے جائے، اب آواز لگاتاپھرے کون
اختلافات سروں میں ہیں گھروں سے بڑھ کر
پھر اُٹھانی جو ہے دیوار، گراتا پھرے کون