مصطفیٰ شہاب(لندن)
دل اک دنیا بسا لیتا ہے گر کوئی نہیں آتا
فقط محسوس کرتا ہے، نظر کوئی نہیں آتا
خبر اچھی،بُری،تازہ، پرانی ہو نہ ہو پھر بھی
ہماری محفلوں میں بے خبر کوئی نہیں آتا
جو پیچھے چھوڑ آئے ہیں،اسی کو لوٹ جائیں گے
کھلے گا جب کہ ان رستوں پہ گھر کوئی نہیں آتا
کبھی شاطر سے شاید اس لیے بھی جیت سکتا ہوں
کہ مجھ کو چال چلنے کا ہنر کوئی نہیں آتا
برے وقتوں نے ایسا گھیر رکھا ہے کہ برسوں سے
اِدھر اچھے دنوں کا نامہ بر کوئی نہیں آتا
گزر جاؤ شہابؔ اس پُر خطر کانٹوں کے جنگل سے
کہ اس کے بعد پھر ایسا سفر کوئی نہیں آتا