اکبر حمیدی
کسی وہم و گماں میں مت رہنا
بے مکاں کے مکاں میں مت رہنا
دیکھنا اوروں میں اتر کر بھی
اپنے ہی جسم و جاں میں مت رہنا
بھیڑ میں رہ کے کچلا جائے گا
دیکھ یوں درمیاں میں مت رہنا
وہی اچھے ہیں جو زمیں پر ہیں
تم کسی آسماں میں مت رہنا
اب یہ سکّہ نہیں ہے چلنے کا
نسبتِ این و آں میں مت رہنا
بات کر اس کے پیکر گُل کی
اپنے رنگ بیاں میں مت رہنا
نئی دنیا بلاتی ہے اکبرؔ
گئے گزرے جہاں میں مت رہنا