اکبر حمیدی (اسلام آباد)
توقعات زیادہ نہیں رکھا کرتے
دکھوں کے واسطے رستا نہیں رکھا کرتے
خود اپنے ذہن میں سب رونقیں لگا رکھیں
کہ اپنے آپ کو تنہا نہیں رکھا کرتے
سوائے اس کے کوئی دوسرا نہیں ہے یہاں
کبھی گماں بھی کسی کا نہیں رکھا کرتے
جو تم پہ بند ہوں دروازے بادہ خانے کے
خیالِ ساغر و مینا نہیں رکھا کرتے
پڑے جو رَن کسی بُزدل کو ساتھ مت لینا
کہ راہِ سیل میں تنکا نہیں رکھا کرتے
جو زندگی کا تقدس بحال رکھنا ہو
تو سب کے سامنے دکھڑا نہیں رکھا کرتے
چھپائے رکھا ہے اکبرؔ نے اس کے ہجر کا دکھ
کچھ اس طرح سے کہ گویا نہیں رکھا کرتے