احمد ہمیش(کراچی)
کس توقع پر کیا اُٹھا رکھیئے
دل سلامت نہیں تو کیا رکھیئے
لکھیئے کچھ اور داستانِ دل
او ر زمانہ کو مبتلا رکھیئے
روح کا غم تو استعارہ ہے
روح کے غم سے واسطہ رکھیئے
دشتِ عنقا میں کچھ نہیں ملتا
کیوں یہاں حرفِ مدّعا رکھیئے
سر میں سودا ر ہے محبت کا
پاؤں کی خاک میں انا رکھئیے
بند ہو جائیں نہ کہیں آنکھیں
خانۂ درد کو کھلا رکھیئے
بوند بھر آب کیا مقّدر ہے!
ابر رکھیئے تو کچھ ہوا رکھیئے
قبل انصاف چل بسا ملزم
اب عدالت میں کیا سزا رکھئیے
اس سے پہلے کوئی جلانے آئے
اپنے ہاتھوں ہی گھر جلا رکھیئے
حسرتیں ہو چکیں تمام ہمیشؔ
اب تو دنیا سے فاصلہ رکھیئے