محمد اظہر (مظفر گڑھ)
غالب دنیا کے عظیم شاعر ہیں۔کسی طرح بھی شیکسپئShakespeareسے کم نہیں۔ ان کے خیالات اور معانی کی گہرائی بعض اوقات عام قاری پہ بہت بھاری ہوتی ہے۔ میں ان کی شاعرانہ عظمت کو کسی طرح بھی ثابت کرنے نہیں جا رہا کیوں وہ تو عالم شش جہات میں ایک حقیقت ہے۔ میں تو ان کی شاعری کی ایک عامی و عوامی جہت سے آپ کو متعارف کروانا چاہتا ہوں۔ مثلا ً ان کی شاعری میں آموں کی تعریف ، چکنی ڈلی اور بیسنی روٹی کا ذکر، دال کا ذکر، آتش بازی کا ذکر اور اس سے بھی بڑھ کر جنوری (January) ، وکٹوریہ (Victoria) ، ریل(Rail) ، گورنمنٹ (Government) ، افسر(Officer) ، میکلوڈ(Mclod)،اور گلاس (glass) وغیرہ کا ذکر اس آمر کا آئینہ دار ہے کہ مرزاغالب جو 15 فر وری 1869 کو فوت ہوئے (جنگ آزادی کے بعد 12 سال تک زندہ رہے۔ جنگ آزادی جسے انگریزوں نے غدر کہا 1857 میں ہوا) نے ان 12 سالوں میں دلی کی بربادی اور اپنی بربادی کے باوجود انگریزوں کے لیے بھی قصیدے لکھے اور ان کی عمومی شاعری میں انگریزی الفاظ کو استعمال تک کیا جاتار ہا۔ ظاہر ہے مرزا کو انگریزی زبان تو نہ آتی تھی تاہم انگریزی نام اور الفاظ کا استعمال بھی حیران کن ہے۔
مثنوی درمدح آم(آموں کی تعریف)
یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ مرزا غالب کو آم بہت پسند تھے، آموں کا ذکر ان کی شاعری میں کئی بار آیاہے لیکن دیوان غالب میں آموں کی تعریف میں ایک طویل مثنوی بھی شامل ہے۔یہ شائد کم ہی لوگ جانتے ہوں اس مثنوی کے چند اشعار حاضر خدمت ہیں۔
بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے
7خامہ، نخلِ رطب فشاں ہو جائے
آم کا کون مرد میداں ہے
ثمر و شاخ، گوئے چوگاں ہے
اسی مثنوی میں غالب آم کا دوسرے پھلوں مثلاً انگور اور نیشکر سے تقابل بھی کرتے ہیں۔
نہ چلا جب کسی طرح مقدور
بادۂ ناب بن گیا انگور
یہ بھی نا چار جی کا کھونا ہے
شرم سے پانی پانی ہونا ہے
مجھ سے پوچھو تمہیں خبر کیا ہے
آم کے آگے نیشکر کیا ہے
اور دوڑائیے قیاس کہاں
جانِشیریں میں یہ مٹھاس کہاں
پھر آموں کی تعریف میں غالب یوں بھی کہتے ہیں۔
صاحبِ شاخ وبرگ و بار ہے آم
ناز پروردۂ بہار ہے آم
انگبیں کے بہ حکمِ ربّ النّاس
بھر کے بھیجے ہیں سر بہ مُہر گلاس
اب دیکھئے کہ گلاس(glass) ظاہر ہے انگریزی زبان کا لفظ ہے اس زمانے میں مرزا غالب نے یہ سیکھ لیا تھا اور اپنی شاعری میں استعمال بھی کر دیا۔ دہلی اور اس کے گردونواح میں 1857ء سے پہلے تو انگریزوں کے چند ہی خاندان رہتے تھے۔ غالب جو کہ غدر کے بعد صرف12 سال زندہ رہے انگریزی کے الفاظ بھی سیکھ چکے اور اس پر طُرہ یہ کہ انہیں اپنی شاعری میں بھی استعمال کرنے لگ گئے تھے۔ یہ غالب کی ہشت پہلو علمی شخصیت کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔ ایک اور جگہ’’خطِ منظوم بنام علائی‘‘یعنی ایک خط اپنے دوست نواب علائی کے نام لکھتے ہوئے پھر آم کا ذکر یوں کرتے ہیں۔
خوشی ہے یہ آنے کی برسات کے
پئیں بادۂ ناب اور آم کھائیں
سر آغاز موسم میں اندھے ہیں ہم
کہ دہلی کو چھوڑیں لوہار و کو جائیں
سو اناج کے جو ہیں مطلوب جاں
نہ واں آم پائیں نہ انگور پائیں
وہ کھٹے کہاں پائیں املی کے پھول
وہ کڑوے کریلے کہاں سے منگائیں
اس منظوم خط سے غالب کی پھلوں اور خاص کر آم سے رغبت ظاہر ہوتی ہے۔روزمرہ کی عام باتوں کو بھی انہوں نے اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔
مثنوی درمدحِ ڈلی۔
چکنی ڈلی ایک قسم کی چھالیہ ہوتی ہے جسے دودھ میں پکاتے اور اُمراء مٹھاس کے لیے منہ میں رکھتے تھے اس مثنوی کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
ہے جو صاحب کے کفِ دست پہ یہ چکنی ڈلی
زیب دیتا ہے، اسے جس قدر اچھا کہیے
خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ، اسے کیا کہیے
بندہ پرور کے کفِ دست کو دل کیجئے فرض
اور اس چکنی سُپاری کو سُوَیدا کہیے
بیسنی روٹی بیسنی روٹی کی تعریف میں ایک قطعہ یہ ہے۔
نہ پوچھ اس کی حقیقت حضور والا نے مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی روغنی روٹی
نہ کھاتے گیہوں نکلتے نہ خُلد سے باہر جو کھاتے حضرتِ آدم یہ بیسنی روٹی
روزہ اور افطاریتہی دستی و تنگ دستی سے غالب ہمیشہ تنگ رہے۔روزے کبھی رکھ بھی لیتے کبھی چھوڑ بھی دیتے۔روزہ اور افطاری کے بارے میں ان کے تاثرات سنئیے۔ اس میں مزاح بھی ہے اور ان کی افتاد طبع بھی۔
افطار صوم کی کچھ اگر دستگاہ ہو
اس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
ایک اور رُباعی اس موضوع پر یوں ہے۔
سامان خورو خواب کہاں سے لاؤں؟ آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں
روزہ میرا ایمان ہے غالب! لیکن خس خانہ و برفاب کہاں سے لاؤں
غالب نے زندگی کے ہر پہلو پر شاعری کی ہے روائتی شاعرانہ عنوانات کے علاوہ روزمرہ کی زندگی پر بھی۔
دال
دال ویسے تو غریبوں کا کھاجا ہے۔دال کبھی سستی اور کم قیمت ہوا کرتی تھی اور غریب آدمی کی پہنچ میں بھی تھی۔ اب تو خیر سے دال بھی ایک مہنگی چیز ہے۔بادشاہ بھی کسی خاص طریقے سے دال پکواتے تھے۔ ذائقہ میں بہت ہی اچھی ہوتی اور ’’شاہی دال‘‘بھی کہلاتی تھی اس ضمن میں یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
بھیجی ہے جو مجھ کو شاہ جم جاہ نے دال ہے لطف و عنایاتِ شہنشاہ پہ دال
یہ شاہ پسند دال بے بحث و جدال ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال
ایک قصیدہ میکلوڈ انگریز گورنر کے نام:
اس قصیدہ میں غالب نے بہت کچھ کہا ہے۔ اس کے مطالعے سے پتہ لگتا ہے کہ جیسے لدھیانہ کے کسی اخبار نے غالب کے بارے میں کوئی ایسی خبر لگا دی کہ جس سے انگریزی دربار میں ان کی پہلی سی عزت نہ رہی۔ اس قصیدہ میں وہ اس اخبار نویس کے خلاف لکھتے ہیں جس نے ان کو انگریز بہادر کی نظرِ عنایت سے محروم کیا اور بہت سے الفاظ ایسے استعمال کرتے ہیں کہ جن سے ان کے اپنے گردوپیش کے بارے میں علم کا پتہ چلتا ہے۔ اس قصیدے کے چند اشعار لکھ رہا ہوں۔
کرتا ہے چرخ روز بصد گونہ احترام فرمانروائے کشور پنجاب کو سلام
جم رتبہ میکلوڈ بہادر کے وقت رزم ترک فلک کیہاتھ سے وہ چھین لیں حسام
اخبار لودھیانہ میں میری نظر پڑی تحریر ایک جس سے ہوا بندہ تلخ کام
سب صورتیں بدل گئیں ناگاہ یک قلم لمبر رہا نہ نذر نہ خلعت کا انتظام
تھی جنوری مہینے کی تاریخ تیر ھویں استاد ہوگئے لب دریا پہ جب خیام
آیا تھا وقت ریل کے کھلنے کا بھی قریب تھا بارگاہ خاص میں خلقت کا اژدھام
وکٹوریہ کا دہر میں جو مدح خوان ہو
شاہان عصر چاہیے لیں عزت سے اس کا نام
خود ہے تدارک اس کا گورنمنٹ کو ضرور
بے وجہ کیوں ذلیل ہو غالب ہے جس کا نام
اب اس قصیدہ میں لفظ لمبر بھی Nmberہی ہے اس کا اس وقت کا مطلب عہدہ وغیرہ تھا جیسے’’نمبردار‘‘چلا آرہا ہے۔ اس وقت لودھیانہ سے اخبار نکل رہے تھے اور یہ وقت وہی 1857ء کے بعد اور1869ء تک کا ہے۔ جنوری(January) کا لفظRailکا لفظ ، گورنمنٹ کا لفظ یوں استعمال کیاجانا ثابت کرتا ہے کہ مرزا غالب نے ان لفظوں کے مطالب کو سیکھ لیا تھا۔یہ بات بھی اپنی جگہ حیران کر دینے کے لیے کافی ہے، غالب جو کہ اردو، عربی اور فارسی دان تو تھے انہوں نے انگریزی کے الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے۔
1857ء کا دلی ’’خط منظوم بنام علائی‘‘ میں ۔
1857ء میں دلی کو انگریزوں نے برباد کر دیا۔ انگریز حاکموں نے مسلمانوں کو جابجا پھانسیاں دیں۔ درختوں کے ساتھ مسلمانوں کی لاشیں ہفتوں لٹکتی رہیں اس وقت غالب دہلی میں موجود تھے۔ ایک منظوم خط اپنے دوست نواب علائی کے نام لکھا۔چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
بس کہ فعّالِ مایُرید ہے آج
ہر سلحشور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہرِ دہلی کا ذرّہ ذرّۂ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا
کوئی واں سے نہ آسکے یاں تک
آدمی واں نہ جا سکے یاں کا