مغربی ممالک میں جہاں جہاں اردو کے چرچے ہیں،ان کے حوالے سے اردو زبان اور ادب کی بین الاقوامیت کا چرچا کیا جاتا ہے۔اگر تو واقعتاَاردو زبان اور ادب بین الاقوامی حیثیت اختیار کر رہے ہیں تو بڑی خوش بختی کی بات ہے۔لیکن اگر حقائق کچھ اور ہیں تو پھر خوش فہمیوں پر کچھ کہنا بے کار ہے۔
اس موضوع سے متعلق چند بنیادی سوالات کے جواب تلاش کرنے پر صورت حال بہتر طور پر واضح ہو سکے گی۔
کیا مغربی ممالک میں مقیم اور اردو سے محبت کرنے والوں کی نئی نسلیں اردو سے اس حد تک منسلک ہیں کہ اردو لکھنا اور پڑھنا جانتی ہیں؟اس سلسلے میں جو بھی قابلِ قدر کاوشیں ہوئی ہیں ان کا اب تک کیا نتیجہ نکلا ہے؟اعداد و شمار کی زبان میں وضاحت کی جا سکتی ہے۔
کیا مغربی ممالک میں مقیم اردو والوں کی نئی نسل میں سے وہاں رہتے ہوئے اردو شعر و ادب سے کوئی تخلیقی نوعیت کی وابستگی سامنے آئی ہے؟ یعنی کیا مغربی ممالک میں نئی نسل میں سے کوئی شاعر اور ادیب سامنے آیا ہے؟
اگر ان دونوں بنیادی سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو اردو کی بین الاقوامی حیثیت کے دعووں کے باوجود صورتحال تشویشناک دکھائی دیتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان اور انڈیا سے مغربی ممالک میں آبسنے والے شاعر اور ادیب ہی یہاں ادبی سرگرمیوں کا سبب ہیں۔اس میں مزید اضافہ اُن’’ غیر شاعروں‘‘ کی تعداد سے ہو رہا ہے جو شاعر نہ ہو کر بھی نقد ادائیگی کر کے لکھے لکھائے اور چھپے چھپائے شعری مجموعے حاصل کرکے شاعر بن رہے ہیں۔
اگراس نوعیت کے شعراء کی تعداد میں اضافہ ہونا اور پاکستان اور انڈیا میں ان سے اپنے مفادات وابستہ رکھنے والی ’’شاعر گر‘‘ادبی شخصیات کے مفادات کا پورا ہونا اردو ادب کا فروغ ہے تو پھر بے شک یہاں اردو ادب فروغ پا رہا ہے وگرنہ مغربی ممالک میں اردو کے سلسلے میں ہونے والی زیادہ تر سرگرمیاں محض ثقافتی قسم کے میلے ٹھیلے جیسی ہیں۔
مغربی ممالک میں مقیم وہ شاعر اور ادیب جو بیرون ملک آنے سے پہلے سے اپنی ادبی شناخت رکھتے تھے،
ان سے ہٹ کر باقی شاعروں اور ادیبوں کی عمومی صورتحال دیکھی جائے تواس نام نہاد عالمی اردوادب سے’’ شاہ عالمی لاہور‘‘ کااردو ادب کہیں زیادہ معیاری دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے کے متعدددوسرے شعبہ ہائے حیات کی طرح یہاں بھی اب نمبر دو قسم کے لوگ غلبہ پانے لگے ہیں۔کتنا اچھا ہو کہ اردو اور ادب سے سنجیدہ وابستگی رکھنے والے شعراء و ادباء اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر کھل کر بات کر سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید ادب کے وسائل کے سلسلے میں نہ پہلے کبھی لکھا ہے نہ اب لکھنا ہے،بس اتنا بتانا ہے کہ بعض مالی مجبوریوں کے باعث اگلا شمارہ جنوری ۲۰۰۷ء کی بجائے(بشرطِ زندگی) جولائی ۲۰۰۷ء میں لا سکیں گے،البتہ اس کی ضخامت چار سو صفحات سے کم نہیں ہو گی۔انشاء اللہ! حیدر قریشی