خواجہ احمدؔ عباس
ہمارے یہاں دستور یہ ہے کہ جب تک کوئی انسان زندہ رہتا ہے اس میں ہر کوئی ہزار کیڑے نکالتا ہے، اس کو برا بھلا کہاجاتا ہے، اس کو گالیاں تک دی جاتی ہیں۔لیکن جیسے ہی وہ مرجاتا ہے ہر طرف سے اس پر تحسین و توصیف کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔ تعریفوں کے پُل باندھے جاتے ہیں۔اس کی شان میں قصیدے لکھے جاتے ہیں۔اس کی موت کو اس سال کا، یا پچھلے دس سال کا یا ایک صدی کا سب سے بڑا سانحہ قرار دیا جاتا ہے۔شاید ایسا ہونا قدرتی بھی ہے اور لازمی بھی۔ موت کی جھاڑو سب اختلافات کو، سب اعتراضات کو، سب نفرتوں اور کدورتوں کو سمیٹ کر لے جاتی ہے۔کم سے کم ہم مرے ہوئے ساتھیوں کو بخش دیتے ہیں۔
سید سجاد ظہیرؔ جن کو ہم میں سے بیشتر ’’ بنے بھائی‘‘ کے نام سے جانتے اور پکارتے تھے،شاید اُن گنے چنے لوگوں میں سے تھے جن کو ان کی زندگی میں اور زندگی کے بعد بھی کسی نے برا نہیں کہا۔میں سوچتا ہوں اس کی کیا وجہ ہے؟
شاید اس لئے کہ وہ خود دوسروں کی اچھائیوں ہی کو دیکھتے تھے۔ برائیوں کو نظر انداز کردیتے تھے۔شاید اس لئے کہ سیاسی اور نظریاتی اعتبار سے کمیونسٹ ہونے کے باوجود ان میں ’’کٹرپن‘‘ اور کسی قسم کا بھی تعصب نہیں تھا۔ان کی کمیونزم پر شک کیا جاسکتا تھا۔جیسے کٹر نکسل وادی اور مارکسسٹ کمیونسٹ کرتے تھے،لیکن ان کی انسان دوستی پر آج تک کسی نے شک و شبہ نہیں کیا۔بلکہ ان کا تو کہنا تھا کہ سچا کمیونسٹ انسان دوست ہی ہوتا ہے۔
شاید اس لئے کہ وہ طبیعتاً امن پسند اور صلح کُل انسان تھے۔یہ ان کی شخصیت کا منفی پہلو نہیں تھا۔ان کی صلح پسندی نظریاتی یا طبقاتی’’ غیر جانب داری‘‘ نہیں تھی۔وہ اپنے اصولوں پر شدت کے ساتھ قائم تھے لیکن اس شدت کا اظہار نہایت مہذب اور ملائم انداز سے کرتے تھے۔
شاید اس لیے کہ تہذیب، نفاست، شائستگی، اخلاق، یہ سب خوبیاں، یہ سب انسانی قدریں(جنھیں غلطی سے پرانے فیوڈل سماج سے وابستہ سمجھا جاتا ہے) جواہر لال نہرو کے بعد سجاد ظہیر کی شخصیت میں بدرجہ اتم موجود تھیں اور ہر ملنے والا چاہے وہ ان کا کتنا ہی سیاسی یا نظریاتی مخالف کیوں نہ ہو، سجادظہیر سے ملنے کے بعد ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔یا شاید اس لئے کہ ان کی زبان سے کبھی کسی کی بابت کوئی سخت درشت یا ناروا جملہ میں نے یا شاید کسی نے بھی نہیں سنا۔ ایک بد تہذیب، بد زباں اور لیچڑ قسم کے شاعر کے لئے زیادہ سے زیادہ سجاد ظہیر کو یہ کہتے سنا ہے کہ’’ بھئی عباس یہ تو بڑا بور ہے!‘‘
شاید اس لئے بھی کہ سجاد ظہیر ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اپنے اصولوں اور آدرشوں کے لئے تن من، دھن سب قربان کردیا تھا۔ یورپین اور امریکن ملکوں کے مقابلے میں ہمارے ہندوستان میں انسانوں کی کامیابی ناپنے کے الگ پیمانے ہیں۔امریکہ میں اس آدمی کی عزت ہوتی ہے جس نے اپنی زندگی میں ایک کروڑ ڈالر کمائے ہوں ،برخلاف اس کے ہندوستان میں اس کی عزت ہوتی ہے جس نے لاکھوں کروڑوں روپے یا جائداد خدمتِ خلق کے لئے قربان کردئیے ہوں۔ یہ روایت ہزاروں برس سے چلی آرہی ہے۔ مہاتما بدھ اس کے پیش رو تھے۔ محلوں کی شاہی زندگی چھوڑ کر فقیری اختیار کرلی۔
بیسویں صدی میں اس روایت کو مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو نے اور کتنے ہی کانگریسی، کمیونسٹ اور سوشلسٹ رہنماؤں نے اپنایا۔عیش و آرام تیاگ کر خدمت، محنت، قربانی کا راستہ اختیار کیا۔ ان ہی میں سے ایک سجاد ظہیر بھی تھے۔لیکن بنے بھائی کی فقیری میں بھی ایک شاہانہ شان تھی۔ وہ کھدّر کا معمولی کرتا، پاجامہ اور جواہر جیکٹ اس اہتمام سے پہنتے تھے جیسے کوئی لندن کا سلا ہوا ہزاروں روپے کا سوٹ۔ان کی سادگی میں کسی قسم کا تصنع و بناوٹ یا دکھاوا نہیں تھا’’ شہیدانہ‘‘ پوز نہیں تھا۔ خود نمائی تھی نہ خود ستائی۔ ایک بار جب انھوں نے عوام کی سی زندگی اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا تو انھوں نے اس شان بے نیازی کے ساتھ فقیری کا چولا پہن لیا جیسے بچپن سے انھوں نے اس طرز زندگی کے سوا کچھ دیکھا ہی نہیں تھا۔
بنے بھائی اپنے باپ سر وزیر حسن کے محل جیسے گھر میں پیدا ہوئے تھے۔جب سر وزیر حسن کا انتقال ہوگیا اور ان کے سب بیٹے مع سجاد ظہیر کے، سب بھائی ہندوستان بھر میں بکھر گئے اور یہ چالیس پچاس جہازی کمروں کی کوٹھی کرایہ پر چڑھادی گئی تو کئی برس تک سجادظہیر اپنی بیوی رضیہ اور اپنی چھوٹی بچیوں کے ساتھ اسی وزیر منزل کے شاگرد پیشہ کی تین کوٹھریوں میں رہتے تھے، جو گرمی میں بھٹی کی طرح جلتی تھیں اور جہاں کے ٹوٹے دروازوں، کھڑکیوں میں سے جاڑے بھر برفیلی ہوائیں سائیں سائیں کرتی تھیں۔کئی برس ہوئے جب لکھنؤ میں سیلاب آیا تو یہ کوٹھریاں اور ان میں بھرا ہوا سب سامان کئی کئی فٹ پانی میں ڈوب گیا۔ بنے بھائی کے ماتھے پر شکن نہیں آئی۔افسوس کیا تو صرف اس بات کا کہ ان کی ذاتی لائبریری کی ہزاروں کتابیں سیل سے خراب ہوگئیں اور ان میں بعض نایاب قلمی نسخے بھی تھے۔
عصمت چغتائی ہفتوں وزیر منزل کی ان کوٹھریوں میں بنے بھائی اور رضیہ کی مہمان رہی تھیں۔ایک ٹیلی وژن انٹر ویو میں انھوں نے بتایا کہ جب وہ وہاں گئیں تو جاڑے کا موسم تھا اور رات کو سجاد ظہیر دروازوں اور کھڑکیوں کے درازوں کو اخبار کے کاغذوں سے بند کرتے پھرتے تھے کہ برفیلی ہوا کے جھونکے اندر نہ آسکیں ۔ کھانا سب باورچی خانے میں چولہے کے پاس بیٹھ کر کھاتے تھے۔گرم گرم روٹیاں توے سے اترتی جاتی تھیں اور ایک ایک نوالہ کرکے دال سالن کے ساتھ سب کھاتے جاتے تھے۔رات کو سب لحافوں میں جب دبک جاتے تو دنیا بھر کی باتیں ہوتیں۔کبھی روس کی، کبھی چین کی، کبھی ہندوستان کی، کبھی سیاست کی، کبھی ادب کی۔ کبھی نئی شاعری کی، کبھی آرٹ کے نئے تجربوں کی۔بیچ بیچ میں سجاد ظہیر اپنی بچّیوں کو جو اس وقت بہت چھوٹی عمر کی تھیں قصے کہانیاں سناتے رہتے اور جنوں پریوں کی کہانیاں سنتے سنتے بچیاں باپ کی گود میں سوجاتیں اور تب سجاد ظہیر اپنی بیوی رضیہ اور عصمت کی طرف مخاطب ہوتے اور کہتے’ ہاں بھئی تم نے کرشن چندر کی نئی کہانی پڑھی ہے۔۔۔یا فیض احمد فیضؔ کی نئی غزل یا سردار جعفری کی نئی نظم یا ملک راج آنند کا نیا ناول یا حسین کی نئی پینٹنگ اور پھر گھنٹوں ادبی یا فنی موضوع پر گفتگو ہوتی اور باہر ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بار بار سجاد ظہیر کا دروازہ کھٹ کھٹاتے۔ کھڑکیوں کو جھنجھوڑتے ۔ یہاں تک کسی دراز میں ٹھونسا ہوا کاغذ یا کپڑا اپنی جگہ چھوڑدیتا اور پھر فراٹے بھرتی ہوئی ہوا اندر آجاتی اور لحاف کو اپنی ٹھوڑی تک ڈھکتے ہوئے بنے بھائی کہتے ’’اچھا بھئی اب سوجاؤ۔‘‘
عصمت آپا ہی کی زبانی یہ بھی سنا کہ ان دنوں بنے بھائی بڑی تنگی کی زندگی گذار رہے تھے۔رضیہ شاید کسی کالج میں پڑھاتی تھیں۔سجاد ظہیر انگریزی یا فرانسیسی کی کتابوں کے ترجمے کرتے تھے۔بڑی مشکل سے گذارا ہوتا تھا۔لیکن مہمان داری اور مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ ہوتی تھی۔صبر و قناعت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ کبھی کبھی رضیہ جھنجھلا جاتیں اور اپنے شوہر کو برا بھلا کہہ ڈالتیں جو عصمت آپا کو نہایت ناگوار گذرتا۔بچیاں بھی باپ کی طرفداری کرتیں لیکن بنے بھائی خود مسکرا کر بڑی معصومیت سے کہتے۔’’ ارے بھئی عصمت، رضیہ جو کہتی ہے ٹھیک کہتی ہے۔ہم ہیں ہی نکھٹو۔ دیکھو نا ہم نے کچھ بھی تو نہیں کیا۔ بیوی بچوں کے لئے نہ گھر بنایا، نہ کوئی آرام دیا ۔ ۔ ۔ اور اس وقت رضیہ سب شکایتیں بھول کر اس حیرت انگیز شخص کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی رہتیں جو اس کا شوہر تھا۔اس کا محبوب تھا۔اس کا آئیڈیل اور آدرش تھا۔‘‘
کبھی کبھی عظیم انسانی شخصیتیں ایسی ہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے پہچانی اور پرکھی جاتی ہیں۔
جب سجاد ظہیر آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو ان کے سامنے دنیا کھلی پڑی تھی۔دولت، عزت،شہرت،مکان جائداد۔۔۔سب کچھ حاصل ہوسکتا تھا۔چاہتے تو گھر کی اتنی بڑی جاگیر تھی کہ عمر بھر صرف شکار کھیلتے،تاش کھیلتے اور عیش و آرام کی بیکار زندگی بسر کرتے۔چاہتے تو آئی سی ایس میں آکر ڈپٹی کمشنر سے کمشنر یہاں تک کہ گورنر ہوجاتے، اپنے والد کی طرح ’’سر‘‘ کا خطاب حاصل کرتے۔ برطانوی سامراج کا ایک ستون بن جاتے۔چاہتے تو اپنے بڑے بھائیوں کی طرح بیرسٹری کرتے۔ ہزاروں روپئے روز کے مقدمے لڑا کرتے ۔ لاکھوں روپئے کماتے۔۔۔کوٹھی بنگلہ جائداد بناتے۔مگر بنے بھائی نے ان میں سے کچھ بھی نہیں کیا۔ ان کو زندگی میں کچھ اور ہی کرنا تھا۔نہ جانے کہاں سے ان کو ایک محسوس کرنے والا دل مل گیا تھا۔ایک سوچنے والا دماغ مل گیا تھا۔شاید ان کے اپنے مشاہدے سے اپنے تجربے سے یہ احساس پیدا ہوا تھا۔
لکھنؤ کے پاس ہی ان کی زمینداری تھی۔کھیت تھے۔ زمینیں تھیں۔باغ تھے۔ بچپن میں جب کبھی وہاں جاتے تو پھٹے پرانے چیتھڑے پہنے کسانوں کو چلچلاتی دھوپ میں ہل چلاتے دیکھتے، ان کے ٹوٹے پھوٹے کچے جھونپڑوں کی طرف نظر کرتے تو ان کا دل اداس ہوجاتا اور ان کا دماغ سوال کرتا یہ کیوں ہے؟ کچھ لوگ امیر کیوں ہیں؟ اتنے بہت سے لوگ غریب، مفلس ا ورنادار کیوں ہیں؟ کیا اس امیری اور اس غریبی میں کوئی رشتہ ہے ؟
یہی سوال کرتے کرتے وہ سوشلزم کی منزل تک پہنچ گئے۔کمیونسٹ ہوگئے۔مزدور تحریک کے رہنما ہوگئے۔جیل چلے گئے۔ایک بار دو بار اور پھر بار بار۔مگر دراصل بنے بھائی سیاست کے لئے نہیں تخلیق کئے گئے تھے ۔ان کا دل ایک شاعر کا دل تھا۔ایک ادیب کا، ایک آرٹسٹ کا دل تھا۔ اگر حالات اس کی اجازت دیتے تو وہ ساری عمر کتابیں پڑھاکرتے،کتابیں لکھا کرتے۔ادیبوں، دانشوروں، شاعروں، فن کاروں کی محفلوں میں بیٹھتے ۔ ادبی اور فنی مسئلوں پر مباحثے کیا کرتے۔لیکن ابھی انھوں نے جوانی میں قدم دھرا تھا۔دو تین افسانے ہی تصنیف کئے تھے اور یہ افسانے بھی بڑے تیکھے اور چونکا دینے والے تھے۔ کہ ان کو معلوم ہوگیا کہ غلامی اور کس مپرسی کی حالت میں نہ کوئی قوم اچھے شاعر پیدا کرسکتی ہے نہ ادیب۔شعر کہنے کے لئے، اچھے ناول لکھنے کے لئے عوام کا ادبی، فنی شعور جگانے کی ضرورت تھی جو بغیر آزادی اور انقلاب کے ناممکن تھا۔اور سویہ حساس، شاعرانہ، فن کارانہ دل اور تخلیق کی صلاحیت رکھنے والا دماغ انقلابی سیاست کی بھٹی میں کود پڑا۔لیکن سیاست کے ہنگاموں میں بھی جیل کی کال کوٹھریوں میں بھی بنے بھائی کی تخلیقی کاوشیں جاری رہیں۔
سب سے پہلے انھوں نے احمد علی اور محمود الظفر مرحوم کے ساتھ مل کر ’’انگارے‘‘ نامی کتاب کے چونکا دینے والے نفسیاتی افسانے لکھے، جنھوں نے اردو افسانہ نگاری کے سوتے ہوئے تالاب میں ایک بہت بڑا پتھر پھینک کر ہلچل مچادی۔پھر ولایت کی طالب علمی کے زمانے میں ہی ’’لندن کی ایک رات‘‘ نامی ناول میں ہندوستانی جوانوں کے باغیانہ اور فرار پسند دونوں قسم کے کرداروں کا خاکہ کھینچا۔مدت کے بعد پاکستان میں نظر بندی کے دوران میں انہیں ایک ضخیم کتاب لکھنے کا موقع ملا۔ بغیر اخباروں، رسالوں کی فائلوں کے، بغیر کتابوں کے صرف اپنی یاد کے سہارے انھوں نے ہندوستان کی اور خاص کراردو کی ترقی پسند ادبی تحریک کی ایک مستند تاریخ مرتب کردی جو برسوں بعد ’’روشنائی‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔
سجاد ظہیر ترقی پسند تھے لیکن ان کے دل میں قدیم اور کلاسیکل ادب کی تخلیق کرنے والوں کے لئے بڑا احترام تھا۔بڑی محبت تھی۔چاہے وہ جوشؔ ہوں یا جگر ؔہوں یا فراقؔ گورکھپوری۔لیکن ساتھ ہی وہ سمجھتے تھے کہ زندگی کی نئی ذہنی الجھنوں کے ساتھ انصاف کرنے کے لئے شاعری کے سانچوں کو بدلنے کی ضرورت ہوگی۔ اس لئے وہ مانتے تھے کہ ترقی پسندی کی انقلابی روایتوں کو چھوڑے بغیر بھی جدید شاعری کے تجربے کرنے کی ضرورت ہے اور انھوں نے اپنی کتنی ہی جدید انداز کی نظموں میں ایسے تجربے کئے جو ’’پگھلا نیلم‘‘ کے نام سے کتاب کی شکل میں شائع ہوئے۔چالیس سال کی تخلیقی زندگی اور نتیجہ صرف تین کتابیں اور چند افسانے؟
سجاد ظہیرؔ نے انقلابی تحریک میں شامل ہوکر نہ صرف دولت شہرت،آرام،پیسہ روپیہ، جائیداد کو تیاگ دیا، بلکہ ان کی سب سے بڑی قربانی یہ تھی کہ انھوں نے عوام کی خاطر اپنی قدرتی ادبی صلاحیتوں کو اپنے فن کارانہ رجحانات کو پس پشت ڈال دیا۔کمیونسٹ پارٹی کے کارکن کی حیثیت سے انھوں نے مزدوروں کی تنظیم کی، کسانوں کی تنظیم کی، طالب علموں اور نوجوانوں کی تنظیم کی۔ برسوں پارٹی کے ہفتہ وار اخباروں’’ قومی جنگ‘‘ ’’قومی آواز‘‘ اور ’’ حیات‘‘ کی ایڈیٹری کی۔ہندوستان اور پاکستان میں بار بار قید کی صعوبتیں کاٹیں۔سختی تنگی کی زندگی بسر کی لیکن سب سے بڑا تنظیمی کام جو انھوں نے کیا وہ سارے ہندوستان کے ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کو انجمن ترقی پسند مصنفین کی لڑی میں پرودیا تھا۔یہ اتنا بڑا کام تھا جس کے لئے سجاد ظہیرؔ کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ اس تحریک نے ہندوستان کے کتنے ہی ادیبوں کو ترقی پسندی کا رستہ دکھایا۔ مقصدی ادب کے فن کارانہ امکانات سے روشناس کردیا۔کتنے ہی نوجوان ادیبوں کی تخلیقی قوتوں کو جگایا، اُجاگر کیا، ان کی تخلیقوں کو عوام میں مقبولیت بخشی۔اور جتنا کام تحریک نے کیا اس کا بیشتر حصہ سجاد ظہیر کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہ حیثیت ادیب اور شاعر اپنی ذات کے تخلیقی امکانات کو محدود کرکے سجاد ظہیر نے پورے ترقی پسند ادب کی تحریک کو توانائی اور زندگی بخشی اور اس طرح عوام کے ادبی شعور کی ترقی کے امکانات کو لامحدود کردیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بڑی قربانی کسی تخلیقی ادیب یا فن کار کے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔
۱۹۴۷ء سے پہلے بنے بھائی بمبئی کی والکیشور روڈ پر سیکری بھون نامی بلڈنگ کی گراؤنڈ فلور کی ایک فلیٹ میں رہے تھے۔وہ زمانہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی تحریک کی جوانی کا زمانہ تھا۔اردو، ہندی کے زیادہ تر ادیبوں شاعروں کا گروہ بمبئی ہی میں رہتا تھا اور ہر اتوار کی شام کو بنے بھائی کے ہاں یہ سب جمع ہوتے تھے:
کرشن چندر جوش ملیح آبادی
ملک راج آنند سردار جعفری
راجندر سنگھ بیدی سعادت حسن منٹو
اسرار الحق مجاز اپندر ناتھ اشک
ڈاکٹر صفدر آہ سیتاپوری اندر راج آنند
رامانند ساگر مہندر ناتھ
رضیہ سجاد ظہیر امرت لال
عصمت چغتائی شاہد لطیف
اور نہ جانے کون کون؟
افسانے سنائے جاتے، مضمون پڑھے جاتے شعر سنائے جاتے۔ادبی بحثیں ہوتیں۔کبھی کبھی گرما گرمی بھی ہوجاتی۔مگر بنے بھائی جیسے مرنجاں مرنج مہمان نواز کے ہاں سب جھگڑے آخر چائے کی پیالی میں گھول کر ہم پی جاتے۔اور جب ہم لوگ رخصت ہوتے تو بنے بھائی کہتے ’’اچھا عباس‘‘ اگلے اتوار کو آنا نہ بھولنا۔تمہارا ڈرامہ سنیں گے ہم!
پھر یہ سیکری بھون کا ماحول پاکستان چلا گیا۔ایسی ہی ادبی محفلیں وہاں کراچی اور لاہور میں ہونے لگیں۔یہاں تک کہ جن جیلوں میں بنے بھائی رکھے جاتے ان کی کال کوٹھریاں بھی سیکری بھون بن گئیں اور قید و بند کے اس ماحول میں بھی ادب اور شاعری کی شگفتہ پھلجھڑیاں چھوٹنے لگیں۔پھر رہا ہونے کے بعد بنے بھائی ہندوستان آگئے۔اب دہلی کے حوض خاص میں سیکری بھون کی روایات قائم ہوگئیں۔بنے بھائی جہاں جاتے تھے اپنا سیکری بھون کندھے پر اٹھالے جا تے تھے۔
یہ سیکری بھون ان کے ساتھ سات سمندر پار بھی گیا۔ کبھی لندن میں ادبی محفلیں ہوئیں،کبھی تاشقند میں ،جہاں بنے بھائی اور فیض احمد فیضؔ مل جاتے وہیں ایک بارونق ادبی محفل قائم ہوجاتی۔لیکن ان کا سب سے بڑاا دبی کارنامہ ان کی باغ و بہار شخصیت تھی جو ہر ایک نقطۂ خیال کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی۔ میں اکثر ان سے کہتا تھا کہ بنے بھائی آپ انجمن ترقی پسند مصنفین کی فکر کیوں کرتے ہیں۔آپ بذات خود ایک چلتی پھرتی انجمن ہیں۔ جہاں آپ ہیں وہاں سب ترقی پسند ادیب اکٹھے ہوجاتے ہیں۔چاہے آپ بمبئی میں ہوں دہلی میں ہوں، لندن میں ہوں یا ماسکو میں‘‘ اور وہ ایک خاص مسکراہٹ کے ساتھ کہتے۔بھئی عباس جب ہم نہیں ہوں گے تب کیا ہوگا؟
میں کہتا’’ ایسا دن کبھی نہیں آئے گا بنے بھائی ‘‘ مگر وہ دن آہی گیا۔کہتے ہیں بنے بھائی کا وہ مشہور شیردل، انسانیت کی لَے پر دھڑکنے والا دل محبت اور رفاقت سے بھرپور دل، چلتے چلتے تھک کر سوگیا۔ہندوستان سے دور۔سوویت یونین کی وسط ایشیائی پہاڑیوں کے درمیان، قزاقستان کی راجدھانی الماآتا کے شہر میں جہاں وہ افریقی ایشیائی ادیبوں کی کانفرنس کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے۔
مگر نہیں، بنے مرے نہیں۔ان جیسا زندہ دل کبھی نہیں مرسکتا۔آؤ ہندوستان کے ادیبوں کو اکٹھا کرو۔
اردو ادیبوں کو، ہندی ادیبوں کو، بنگالی ادیبوں کو، مرہٹی، گجراتی ادیبوں کو۔
ادیبوں کو دانشوروں کو شاعروں کو،افسانہ نگاروں کو جدیدیوں کو قدیمیوں کو۔ان سب کو جو عوام سے اور عوامی ادب اور شاعری سے محبت کرتے ہیں۔جن کے ادب میں عوام کی زندگی جھلکتی ہے، جن کی شاعری میں عوام کا دل دھڑکتا ہوا سنائی دیتا ہے۔
اور ان سب کے درمیان آپ سید سجاد ظہیر کو، ہمارے اپنے بنے بھائی کو ہمیشہ کی طرح بیٹھا پائیں گے۔ان کے چہرے پر مسکراہٹ ہوگی، اور ایک عجیب اطمینان۔۔۔اور ان کی زبان پر ہمیشہ کی طرح یہی جملہ ہوگا۔’’ بھائی عباس، بھائی ملک، بھئی کرشن، بھئی سردار، بھئی کیفی، بھئی بیدی۔
اگلے اتوار کو آنا اس بار بڑی اہم میٹنگ ہوگی۔‘‘
’’ہم ضرور آئیں گے بنے بھائی۔‘‘
٭٭٭
۔جو لوگ فیشن کے طورپر خود کو ملحد یا دہریہ کہلواکرخوش ہوتے ہیں اور اسی الحاد کو اپنی دانشوری سمجھتے ہیں جبکہ یہ سب کچھ بے حد مصنوعی ہوتاہے مجھے ایسے دانشوروں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہنالیکن وہ لوگ جو کسی فیشن کے طورپرنہیں بلکہ فکری اعتبارسے اس سطح پر ہیں کہ مذہب سے بیزاری محسوس کرتے ہیں ان کے حوالے سے مجھے چند باتیں ضرور کرنی ہیں۔ ایسے دانشوروں کاخیال ہے کہ مقامات مقدسہ پرجاکر ہمیں اپنے اندرجو تبدیلیاں محسوس ہوتی ہیں وہ ان مقامات سے وابستہ ہماری گہری عقیدت کا نفسیاتی اثر ہوتاہے۔ بجاارشاد․․․․․اگر ایسے مقامات پر جاکر کسی کو ذہنی، قلبی اور روحانی بالیدگی نصیب ہوتی ہے، اس کی حالت میں بہتر تبدیلی آتی ہے تو خود جدید نفسیاتی علم کی رو سے بھی یہ ایک بہترین علاج ہے۔ بعض نفسیاتی امراض کااگر اس طریقے سے علاج ہوجاتاہے تو اس سے مذہب سے لاتعلق، جدید علوم سے بہرہ ور ہمارے دانشوروں کو خوشی ہونی چاہیے۔۔۔۔ حضرت ابراہیم کے دور میں دو قبیح رسمیں معاشرتی سطح پر فروغ پانے لگی تھیں۔ بہت سے لوگ رہبانیت کے زیراثر تجردپسندی کی طرف مائل ہونے لگے تھے، بعض انتہاپسند اپنی مجردانہ زندگی کو ہر شبہ سے بالارکھنے کے لئے عضوِ مخصوصہ کو ہی کٹوانے لگے تھے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری․․․․․ایسے ماحول میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس راہبانہ رسم کاخاتمہ کرنے کے لئے اس کی تہذیبی و ثقافتی علامت کے طورپر رسم ختنہ شروع کرادی۔
۔۔۔۔۔اُسی دور میں ایک اوربے رحمانہ رسم یہ تھی کہ کسی قربانی کے حوالے سے بڑے بیٹے کو ذبح کردیا جاتا تھا ۔ سومیرے دانشور دوست ا گر اس تناظر میں ہی غور کریں تو حضرت ابراہیم کے ذریعے حضرت اسماعیل کا قربان ہوجانے کے لئے راضی ہونااور پھر آخری مرحلہ میں بیٹے کو ذبح ہونے سے بچانے کے لئے خدا کی طرف سے دنبہ آجانا اور پھر انسانی قربانی کی جگہ جانوروں کی قربانی کا رائج ہوجانایہ بھی انسانی قربانی کے خلاف ایک انقلابی قدم بنتاہے۔ سو ہمارے دانشور احباب اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مذکورہ دواقدامات کوغور سے دیکھیں تو انہیں احساس ہوگاکہ اُس زمانے کی محدود دنیامیں نسلِ انسانی خود ہی اپنے خاتمہ کی طرف جارہی تھی، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مذکورہ انقلابی اقدامات سے نسلِ انسانی کے پھلنے پھولنے کے امکانات کو نمایاں کردیا۔
(سفر نامہ سوئے حجاز از حیدر قریشی سے اقتباس)