پروفیسر مجنوں گورکھپوری
گذشتہ دس بارہ سال کے عرصے میں چند ایسے لوگ دنیا سے اٹھ گئے ہیں جن کے ساتھ میری نہایت جان دار اور مضبوط یادیں وابستہ ہیں اور جن کا نہ ہونا میرے لئے زندگی میں نا قابل تلافی کمی ہے۔ میں شدت کے ساتھ خود کو تنہا محسوس کرنے لگا ہوں۔ یہ سب لوگ عمر میں چھوٹے یا بڑے میرے رفیق تھے۔ اس وقت سجاد ظہیر کے ذکر کے سلسلے میں چار اور شخصیتیں اس طرح یاد آ رہی ہیں کہ دھیان ٹالے نہیں ٹلتا۔ یہ ہیں نیاز فتحپوریؔ، حکیم احمد شجاع، احتشام حسین اور ڈاکٹر تارا چند۔ احتشام حسین اور سجاد ظہیر پر تو تعزیتی تقریبوں میں زبانی کچھ نہ کچھ کہہ چکا ہوں لیکن باقی بچھڑے ہوئے دوستوں کا حق ابھی ادا نہیں کر سکا ہوں۔ ذہنی فراغت میسر رہی تو سبھی کی یاد تازہ کرنے کا جذبہ رکھتا ہوں۔ اس وقت سجاد ظہیر یاد آ رہے ہیں اور انھیں کا کچھ ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
سجاد ظہیر کو پہلی بار میں نے کب دیکھا۔ مجھے ٹھیک سن یاد نہیں آ رہا ہے۔ لیکن ان کے والد سروزیر حسن سے اور میرے خاندان کے کئی افراد بالخصوص میرے والد مولوی محمد فاروق اور میرے بڑے سالے خان بہادر محمد ذکی ایڈوکیٹ سے دیرینہ اور پائداد مراسم تھے۔ پیشہ کی بنا پر بھی اور نجی طور پر بھی۔ سر وزیر حسن سال میں دو ایک بار
گو رکھ پورآیا کرتے تھے اور میرے والد یا خان بہادر محمد ذکی لکھنؤ یا الہ آ باد جاتے تھے اور سر وزیر حسن سے ملاقات ضرور کرتے تھے۔ کبھی کاروباری مشورے کی غرض سے کبھی صرف دوستانہ تعلقات کے ناطے۔ میں بھی کبھی کبھی ایسے موقعوں پر ساتھ ہوتا تھا۔ اس زمانہ میں میں اتنا ہی اندازہ کر سکتا تھا کہ سجاد ظہیر اپنے خاندان میں سب سے مختلف ہیں۔ ان کا مزاج وہ نہیں تھا جو ان کے بھائیوں کا تھا۔ وہ خاموش رہتے تھے اور سنجیدگی کے ساتھ ہر وقت کچھ سوچتے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ میرا دوسرا تاثر یہ تھا کہ وہ سروزیر حسن کے دلارے تھے اور انھیں سے زیادہ مانوس اور بے تکلف تھے۔ میرا یہ تاثر بعدکو یقینی ہو گیا۔
سجاد ظہیر کے نام نے چونکا کر اس وقت مجھے اپنی طرف متوجہ کیا جب ’’انگارے‘‘ کی اشاعت ہوئی اور اس پر ہر طرف سے شور مچایا جانے لگا، یہاں تک کہ حکومت نے اس کو ضبط کر کے اس کی اشاعت ممنوع قرار دے دی ۔ ’’انگارے‘‘ چند افسانوں کا مختصر مجموعہ تھا جن میں ہمارے معاشرے اور اخلاق کی مروجہ میکانکی اور بے جان قدروں کا پیش قدم، بے باک اور پر شباب لہجے میں پردہ فاش کیا گیا تھا۔ ’’انگارے‘‘ میں ڈاکٹر رشید جہاں، سجاد ظہیر اور احمد علی (پروفیسر) کے افسانے بڑے توانا اور موثر تھے۔ ان کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتا تھا کہ زندگی ایک ’’جہان دِگر ‘‘ کی تعمیر کا مطالبہ کر رہی ہے اور سوچنے والے صالح اور حق شناس نوجواں کو اس کا تیز شعور ہے۔ ان میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر ایسی لے دے مچائی جاتی، لیکن شرع و آئین، اخلاق و معاشرت کے اجارہ دارو ں
کو تو گیرو دار کا ہنگامہ برپا کرنے کے لیے کوئی بہانہ چاہئے۔ ہنگامہ برپا کرنے والوں میں وہ لوگ بھی تھے جو اپنی پر اضطراب جوانی کے زمانے میں بزرگان علم و دانش اور ہادیانِ دین و ایمان کی شان میں ایسی بے ادبیاں کر چکے تھے جو کسی شرع یا قانون کی رو سے روا نہیں تھیں۔ یہ لوگ اب تائب ہو کر مذہب و اخلاق اور رشد و ہدایت کے قائد بن گئے تھے۔
۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۵تک بر صغیر کی تاریخ میں ایک اہم عبوری دور رہا ہے۔ ایک طرف ملکی آزادی اور خود مختاری کے جاں باز اپنی اب تک کی کوششوں کا جائزہ لے رہے تھے اور نئے لائحہ عمل کے بارے میں ٹھنڈے دل کے ساتھ غور کر رہے تھے۔ دوسری طرف برطانوی سامراج بر صغیر میں اپنے قیام و استحکام کی غرض سے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کر رہا تھا۔ اس صورت حال سے جو نتیجے نکلے ان میں دو بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ ایک تو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء جس کی بنیاد پر بر صغیر میں پہلی بار ملکی وزارتیں قائم ہوئیں۔ دوسرا اہم واقعہ یہ تھا کہ حکومت نے کمیونسٹ پارٹی کو ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے قانونی طور پر تسلیم کر لیا اور انڈین کمیونسٹ پارٹی ایک منظم اور موثر جماعت کی شکل میں وجود میں آئی۔ ورنہ پہلے کمیونزم یا کمیونسٹ کا نام لینا ایک سنگین خطرہ تھا۔ جو لوگ اپنے مطالعہ اور فکر کی بنا پر اشتراکیت کے فلسفہ یا اشتراکی ہئیت اجتماعی کے خلوص نیت اور صدق دل سے قائل تھے وہ یا تو مبہم طور پر اپنے کو یساری عینی Leftistکہتے تھے یا کانگریس سوشلسٹ پارٹی کا سہارا لیتے تھے ۔ اس پر بھی حکومت ان پر کڑی نگاہ رکھتی تھی ۔ الہ آباد میں ڈاکٹر زیڈ احمد اور ان کی بیگم ہاجرہ، لکھنؤ میں ڈاکٹر رشید جہاں اور ان کے شوہر ڈاکٹر محمود الظفراور علی گڑھ میں ڈاکٹر کنور محمد اشرف اور ڈاکٹر عبد العلیم کیسے خطروں کے سائے میں بسر کر رہے تھے اس سے میں واقف ہوں، یہ سب لوگ وسیع مطالعہ رکھنے والے، فکر و بصیرت سے بہرہ مند اور مخلص تھے۔
جہاں تک مجھے یاد ہے سجاد ظہیر بیرسٹری کی سند لے کر ۱۹۳۴ء میں وطن واپس آئے اور الٰہ آباد میں قیام کیا۔ الٰہ آباد چند سال قبل خود میرا دوسرا وطن رہ چکا تھا اور میرے اصل وطن بستی اور گورکھپور، دونوں جگہوں سے زیادہ میرے مزاج داں اور ادا شناس الہ آباد میں پیدا ہو گئے تھے جن میں بیشتر ارباب دانش اور اہل ذوق و نظر تھے۔ جب الہ آ باد چھوٹا تو پرانی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے ۱۹۴۶ء تک سال میں کم سے کم تین مرتبہ میں الہ آباد ضرور جاتا تھا اور ہفتہ عشرہ قیام کرتا تھا۔ اس طرح مجھے سجاد ظہیر کو بہت قریب سے جاننے اور پہچاننے کا موقع ملا اور سجاد ظہیر بھی میری طبیعت اور فکر و احساس کے میلانات کو بہت جلد سمجھ گئے۔ پھر ہم ایک دوسرے سے اچھی طرح کھل گئے اور کسی قسم کا تکلف یاپس و پیش درمیان میں باقی نہیں رہا۔
انگلستان کے قیام نے سجاد ظہیر کو خود اپنے مزاج اور میلان طبع کو سمجھنے اور اپنے لئے ایک نصب العین اورر اہ عمل متعین کرنے میں بڑی مدد کی۔ ان کو انگلستان کے اور خود اپنے وطن کے بعض حوصلہ مند اور پر جوش پیش قدم جو ان ذہنوں سے ندا کرنے کے مواقع مسلسل ملتے رہے۔ ان میں ملک راج آنند کا نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔ جو برطانوی کمیونسٹ پارٹی کے ایک سر گرم رکن تھے اور ایک مفکر اور فنکار کی حیثیت سے شہرت پا چکے تھے۔ سجاد ظہیر جب وطن واپس آئے تو انھوں نے زمیں ہموار پائی اور ان کو فکر ہوئی کہ بر صغیر میں بھی کمیونسٹ پارٹی کا باضابطہ قیام ہو اور لوگوں کو اشتراکی فکر یا ت سے آگاہ اور مانوس کیا جائے۔ ان کے ہم خیال وہم نظر ملک میں پہلے سے موجود تھے جن کے نام گنائے جا چکے ہیں۔ مختصر یہ کہ ڈاکٹر زیڈ احمد اور ان کی بیگم ہاجرہ ، ڈاکٹر رشید جہاں اور ان کے شوہر ڈاکٹر محمود الظفر، ڈاکٹر کنور محمد اشرف اور ڈاکٹر عبد العلیم جیسے سوچنے سمجھنے والے مخلص ساتھیوں نے سجاد ظہیر کی لگن اور دھن کا خیر مقدم کیا اور بر صغیر کے ہر علاقے اور ہر بڑے ضلع میں بہت جلد کمیونسٹ پارٹی وجود میں آ گئی۔ ملک راج آنند ایک مشیر رہنما کی حیثیت سے برابر ساتھ دیتے رہے۔ جن کے نام گنائے گئے ہیں وہ صاف مزاج اور قابلیت کے لوگ تھے۔ ڈاکٹر زیڈ احمد اور ہاجرہ خالص سیاسی اور عملی لوگ تھے اور تنظیم کا قابل رشک ملکہ رکھتے تھے ۔ ڈاکٹر محمود الظفر خاموش انہماک کے ساتھ کام کرنے والے تھے۔ ڈاکٹر رشید جہاں اپنے نقطۂ نظر میں نہ صرف سخت اور اٹل تھیں بلکہ اس کے اظہار میں نہایت بے باک ، طرار اور شعلہ زبان تھیں۔ وہ فطرت کی طرف سے ادبی ذوق و صلاحیت بھی لائی تھیں اور ادب میں بھی جدید اور پیش قدم خیالات کی حامی تھیں۔ اس کا ثبوت ’’انگارے‘‘ کے بعد ان کے افسانوں کے دوسرے مجموعے ’’عورت‘‘ میں ملتا ہے۔ ڈاکٹر اشرف صاحب فکر و تحقیق تھے اور ان کا مطالعہ نہ صرف بے انتہا وسیع تھا بلکہ منظم اور منضبط بھی تھا۔ وہ انگریزی اور اردو زبانوں میں بولنے اور لکھنے کی بڑی مہارت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر علیم بھی مفکر اور صاحب فکر تھے اور انسانی زندگی اور تہذیب کی اقتصادی تعبیر میں درک رکھتے تھے۔ وہ جو کچھ کہتے یا لکھتے تھے وہ ٹھوس اور اٹل ہوتا تھا۔
سجاد ظہیر مارکسی نظام فکر اور زندگی کی جدلیاتی ماہئیت کے شدت کے ساتھ قائل تھے۔ وہ عوام الناس کی زندگی کی ہمہ جہتی فلاح و ترقی پر ایمان رکھتے تھے اور اس کے لئے خلوص نیت کے ساتھ خواہاں اور کوشاں رہنا ہر دیانت دار آدمی کا فرض سمجھتے تھے۔ مگر وہ صرف سیاست کے آدمی نہیں تھے۔ وہ جمالیاتی ذوق اور ادبی شعور بھی رکھتے تھے، اور ثقافت اور فن کاری کو جدلیاتی شعور سے معمور دیکھنا چاہتے تھے۔ اسی جذبے کے تحت وہ اردو میں بھی ترقی پسند مصنفین کی انجمن کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے۔ جیسی دوسری زبانوں میں قائم کرنے کی تجویز ہو رہی تھی۔ خوش قسمتی سے سجاد ظہیر کو ایسے ہمدردوں اور ہم کاروں کا ایک گروہ مل گیا جو یا تو ادیب اور شاعر تھے یا شعر و ادب کا کھرا ذوق رکھتے تھے اور جماعتی غلو کے بغیر ان کے منصوبوں سے پورا اتفاق تھا۔ ان میں ڈاکٹر تارا چند ، فراق گورکھپوری، ڈاکٹر سید اعجاز حسین، قاضی عبد الغفار، لکھنؤ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈی۔ پی۔ مکر جی اور پروفیسر کالی پرشاد جیسی شخصیتیں شامل ہیں۔ پروفیسر احمد علی نظریاتی طور پر کمیونزم کے قائل تھے اور ادبی حیثیت سے ترقی پسند تحریک میں شریک رہے۔ ادبی محاذ پر ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری تحریک کے ایک موثر حامی تھے۔اور ان کا تنقیدی مضمون ’’زندگی اور ادب‘‘ ادبی تاریخ میں ایک نئے موڑ کا حکم رکھتا ہے۔ بہر حال ۱۹۳۶ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین قائم ہو گئی اور دس سال تک بڑی یکجہتی اور واضح مقصد کے ساتھ کام کرتی رہی۔ اس کا سہراد ر اصل سجاد ظہیر کے سر ہے۔ وہ صرف محرک یا بانی نہیں تھے، بلکہ ایک سرگرم کارکن تھے۔ انھوں نے اس تحریک کو فروغ دینے کے لئے پورے بر صغیر کا دورہ کیااور دیکھتے دیکھتے ہر صوبہ میں نوجوان ادیبوں اور شاعروں کی ایک نسل تیار ہو گئی جو اردو ادب کے لئے اب تک باعث فخر ہے ۔ روز اول سے ہر انتخاب میں غائبانہ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی مجلس عاملہ اور اس کی اردو کمیٹی کارکن چنا جاتا رہا ۔ یہ اور بات ہے کہ میں اس کی کسی کانفرنس میں شریک نہ ہو سکا۔ اس کا سبب صرف میری اپنی کاہلی اور بے توفیقی تھی۔ مگر میں اپنی تحریروں سے برابر اس کا ساتھ دیتا رہا۔
سجاد ظہیر سیاسی سے زیادہ ادیب اور انشا پرداز تھے اور وہ متقدمین سے لے کر معاصرین تک اکابر شعر و ادب کے کارناموں کے قدر شناس تھے۔ وہ صحافی بھی اچھے تھے مگر ادب کو صحافت نہیں سمجھتے تھے۔ وہ نہ زود نویس تھے، نہ بسیار نویس۔ وہ جب تک اچھی طرح مطالعہ نہیں کر لیتے تھے اور دیر تک سوچ سمجھ نہیں لیتے تھے، کسی موضوع یامسٔلہ پر قلم نہیں اٹھاتے تھے۔ ’’ذکر حافظ‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ ان کی ایسی تحریریں ہیں جو میرے قول کی تائید کر تی ہیں۔ وہ اور بہت سے منصوبے رکھتے تھے۔ ان میں امیر خسروؔ پر ایک کتاب لکھنا بھی تھا۔ اس کی وہ تیاری کر رہے تھے مگر ’’دریغا عمر نے کی بیوفائی‘‘۔ آخر میں انھوں نے’’شعر منشور‘‘ کی قسم کے جدید فکر سے مملو کچھ نثر پارے بھی لکھے جن کا مجموعہ ’’پگھلا نیلم‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ میں ان پاروں کی ان کے مقام پر قد رکرتا ہوں۔ لیکن سجاد ظہیر کو اصرار تھا کہ وہ شعر ہیں۔ اس باب میں مجھے ان سے شدید اختلاف تھا۔ علی گڑھ اور دہلی میں اکثر بحثیں بھی رہیں۔ وہ خاموش تو ہو جاتے تھے مگر ان کے بشرہ سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ قائل نہیں ہوئے۔
سجاد ظہیر بڑے شریف النفس اور سچے انسان تھے۔ ترقی پسند گروہ میں ان سے زیادہ مہذب، شائستہ اور سلیم الطبع شخص مجھے آج تک نہیں ملا۔ بحث میں ان کا لہجہ ہمیشہ مدھم اور ملائم ہوتا تھا۔ ان کی گفتگو میں انانیت کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ جو کچھ کہتے یا کرتے تھے اس میں ایک بے نفس لگن ہوتی تھی اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی ساری زندگی ایک قربانی تھی۔ وہ ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے جس کی بنا پر حال میں بعض لوگوں نے ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا ہے۔یہ کم ظرفی اور کم نظری کا ثبوت ہے۔ تاریخ کے اوراق الٹیے۔ کتنے اولیاء اور صلحاء ایسے ملیں گے جو امیر گھر انوں میں پیدا ہوئے اور پرورش پائی۔ لیکن جنھوں نے سب کچھ تج کر خدمت خلق کو اپنا شعار بنایا اور اسی میں اپنی ساری عمر گزار دی۔ سجاد ظہیر کو اپنی خاندانی امارت پر کوئی فخر نہیں تھا بلکہ وہ اس خیال سے شرم محسوس کرتے تھے کہ وہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی ماں کے سواسارے کنبے والے ان سے مایوس اور ناخوش تھے۔ لوگ چاہتے تھے کہ اپنے بھائیوں کی طرح وہ بھی کسی اعلیٰ منصب پر فائز ہوں لیکن وہ اپنے لئے سب سے الگ زندگی کا ایک راستہ منتخب کر چکے تھے اور اس راستے کو مرتے دم تک نہیں چھوڑا۔
آج میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں اور دل میں ایک کسک محسوس کر رہا ہوں۔ ۱۹۳۴سے اپریل ۱۹۶۸ء تک سجاد ظہیر سے مسلسل ملاقاتیں ہوتی رہیں اور یہ ملاقاتیں رسمی یا مجلسی نہیں ہوتی تھیں۔ ہم ایک دوسرے کے سچے رفیق و ندیم تھے۔ وہ مجھ سے عمر میں صرف دو سال چھوٹے تھے لیکن میرا لحاظ اس طرح کرتے تھے جیسے میں ان سے بہت بڑا ہوں ۔ میری سخت سے سخت بات کا نہ تو انھوں نے کبھی برا مانا اور نہ تیز لہجہ میں جواب دیا۔ انکی موت نے میرے احساس تنہائی کو تیز کر دیا ہے۔ ۱۹۲۹ء میں مجھ پر رباعیات کہنے کا ایک دورہ پڑا تھا اور میں نے تیس چالیس رباعیاں ایک ساتھ کہہ ڈالیں تھیں۔ ایک رباعی یہ بھی ہے :
احباب سے ہو رہی ہے خالی دنیا
یہ لحظہ بہ لحظہ مٹنے والی دنیا
ہم ہیں اور یاد رفتگاں ہے یعنی
اپنے لئے رہ گئی خیالی دنیا
کیا خبر تھی کسی زمانے کا تخیل آج ایک پر آزار تجربہ ہو کر سامنے آئے گا !
٭٭٭
’’جب ہم مختلف اصناف کو جانچیں اور پرکھیں تو ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ایک صنف کا دوسری
صنف سے فرق بھی دیکھیں۔مثلاً ہمیں اس کا تو اختیار ہے کہ جب ہم دو پھولوں کا مقابلہ کریں تو گلاب
کو چمیلی پر مجموعی حیثیت سے ترجیح دیں،لیکن اگر ہم فطرت کے ان دو بہشتی تحفوں کی علیحدہ اور منفرد خوبیوں
کو بھی نہیں سمجھتے تو پھر ہماری تنقید یک طرفہ اور نامکمل اور اس لئے گمراہ کن ہوگی۔ شعر و ادب زندگی کے ہر
پہلو کی ہزاروں نئے اور د ل فریب انداز میں تنقید اور تصویر کشی کرتے ہیں۔انھیں نمایاں کرتے ہیں اور
بے شمار طریقوں سے ہمارے دل و دماغ کر متاثر اور محظوظ کرتے ہیں۔ایک وقت اور ایک موقع پر زندگی کا
ایک خاص پہلو زیادہ لائق توجہ ہوسکتا ہے۔‘‘
(سجاد ظہیر’’روشنائی ‘‘سے ماخوذ)