سیلاب ہے یادوں کا
اب بھی نہیں آیا
موسم تیرے وعدوں کا
حالات نہیں لکھتے
کاغذی ٹکڑے پر
جذبات نہیں لکھتے
یہ دل کو دکھاتے ہیں
بچھڑے ہوئے لمحے
صدمات کو لاتے ہیں
بیمار کریں گے وہ
جب بھی محبت کا
اظہار کریں گے وہ
جینے کا سہارا تھا
زخم کے اندر کیوں
نشتر یہ اُتارا تھا
نفرت ہے سیاست ہے
دور تباہی کا
انسان کی وحشت ہے
ارمان تمہارے تھے
خواب میں دیکھا تو
امکان تمہارے تھے
سوچے گا وہ ہر لمحہ
پیسے کے بنا انساں
جیتا ہے تو بس تنہا
ہے روشنی پانی میں
چاند کے جیسا ہے
کردار کہانی میں
کیا چیز جوانی تھی
دیکھ کے لگتا تھا
جذبوں کی کہانی تھی
بادل سے گھنیرے ہیں
بال ترے ساجن
خوشبو کے پھریرے ہیں
ملنے کا بہانا ہے
نظروں کی بارش میں
بس کھل کے نہانا ہے
یہ جشن ہے رنگوں کا
پھول یہ کہتے ہیں
موسم ہے اُمنگوں کا
یہ کیسے نظارے ہیں
تشنہ رہے ہیں وہ
جو دریا کنارے ہیں
ظلمت کا سمندر ہے
دیکھ کے ڈرتا ہوں
کیا موت کا منظر ہے
یہ عزم دکھانا ہے
لاکھ ملے طوفاں
کشتی کو چلانا ہے