نام : سید سجاد ظہیر
ادبی نام : سجاد ظہیر (بنے بھائی)
والد کا نام : سر سید وزیر حسن ( ۱۸۷۴ء ۱۹۴۷ء)
والدہ کا نام : سکینہ الفاطمہ عرف سکن بی بی
تاریخ ولادت : ۵نومبر ۱۹۰۵ء
بھائی بہنوں کے نام: سید علی ظہیر
نور فاطمہ (مسز سید عبد الحسن ولد پروفیسر نور الحسن)
سید حسن ظہیر
سید حسن ظہیر
نور زہرہ (مسز نظیر حسن)
سید سجاد ظہیر
سید باقر ظہیر
شادی : ۱۰ دسمبر ۱۹۳۸ء کو خان بہادر سید رضا حسین کی بڑی بیٹی
رضیہ دلشاد سے اجمیر میں ہوئی۔
اولاد : نجمہ ظہیر باقر
نسیم بھاٹیہ
نادرہ ظہیر ببر
نور ظہیر گپتا
تعلیم : میٹرک۔۔گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول ، لکھنؤ ۱۹۲۱ء
بی ۔ اے۔ لکھنؤ یونیورسٹی، ۱۹۲۶ء
ایم۔ اے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی
بار ایٹ لا۔ لندن ]۱۹۲۷ء تا ۱۹۳۵
ڈپلوما ان جرنلزم
سیاسی اور سماجی سرگرمیاں
۱۹۱۹ء تحریک آزادی میں حصہ لینا شروع کیا۔
۱۹۲۷ء انڈین نیشنل کانگریس (لندن برانچ) میں شرکت کی اور لندن میں زیر تعلیم طلبا کو جمع کیا اور مظاہر ے کئے۔
۱۹۲۹ء انگلستان میں مقیم ہندوستانی طلبا کا پہلا کمیونسٹ گروپ قائم کیا۔
۱۹۳۰ لندن میں کمیونسٹ پارٹی رکنیت حاصل کی۔
۱۹۳۵ء لندن میں ہندوستانی ترقی پسند مصنفین کی انجمن قائم کی اور اس کا پہلا منی فسٹو تیا ر کیا۔ اسی سال ہندوستانی مارکسسٹ طلبا کا ایک گروپ بنا کر برٹش کمیونسٹ پارٹی سے رابطہ قائم کر کے فاشزم کے مقابلے میں سینہ سپرد ہو گئے۔ نومبر ۱۹۳۵ء میں ہندوستان واپس آ گئے اور الہ آباد ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے لگے۔ انڈین نیشنل کانگریس کی رکنیت اختیار کی او ر الہ آباد شہر کی کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری ہو کر جواہر لال نہرو کے ساتھ کام کرنے لگے۔ بعد ازاں آل انڈیا شعبوں خاص طور پر فارن ایفرٔس اور مسلم ماس کنٹکٹ سے وابستہ رہے۔ ساتھ ہی کانگریس سوشلسٹ پارٹی اور آل انڈیا کسان سبھا جیسی تنظیموں کو تشکیل دے کر کسانوں اور مزدوروں کی فلاح و بہبور کے لئے کام کرتے رہے۔ اسی زمانہ میں وہ ماہنامہ ’’چنگاری‘‘ (سہارنپور) کے مدیر بھی رہے۔
۱۹۳۶ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس لکھنؤ میں منعقد کی جس کی صدارت منشی پریم چند نے کی تھی۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری منتخب ہوئے۔
برطانوی حکومت کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے کے جرم میں تین بار جیل گئے۔ سنٹرل جیل لکھنؤ میں دو سال قید کاٹی۔ قید کے دوران مختلف ناموں سے اخباروں کے لیے لکھتے رہے۔
۱۹۴۲ء جیل سے رہائی کے بعد پارٹی کے لیے آزادی اور مستعدی سے کام کرنا شروع کر دیا۔ پارٹی کے ترجمان ’’قومی جنگ‘‘ اور ’’نیا زمانہ‘‘ نامی اخباروں کے مدیر اعلیٰ رہے۔
۱۹۴۳ء انجمن ترقی پسند مصنفین کو مستحکم اور منظم کرنے میں لگے رہے۔ ملک کی ساری زبانوں کے ادیبوں ، شاعروں ، دانشوروں اور فن کاروں کو انجمن سے وابستہ کیا۔
۱۹۴۸ء تقسیم ہند کے بعد پارٹی ہائی کمان کے فیصلہ کے مطابق پاکستان گئے اور وہاں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔ پاکستان میں طلبا، مزدوروں اور ٹریڈ یونین کے ممبروں کی تنظیم کی۔
۱۹۵۱ء حکومت پاکستان نے راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا۔ تقریبا ساڑھے تین سال انڈر گراؤنڈ اور چار سال جیل میں گزارا۔ اسی دوران ’’ ذکر حافظ‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ تحریر کی۔
۱۹۵۵ء میں جواہر لال نہرو کی خصوصی توجہ سے ہندوستان واپس آئے اور پھر اپنی سرگرمیوں میں مشغول ہو گئے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی از سر نو تنظیم کی اور پارٹی کے سکریٹری مقرر ہوئے۔
۱۹۵۸ء میں تاشقند میں منعقد پہلی ایفرو ایشین رائٹرس ایسوی ایشن کے سکریٹری مقرر ہوئے۔
۱۹۵۹ء ہفتہ وار ترقی پسند رسالہ ’’عوامی دور‘‘ کے چیف ایڈیٹر ہوئے۔ بعد میں اسی اخبار کا نام بدل کر ’’حیات ‘‘ رکھا گیا۔
۱۹۶۲ء ملک کے مختلف ریاستوں مثلا بنگال، اتر پردیش، آندھرپردیش ، پنجاب، راجستھان، گسے انتقال ہوا۔ تدفین جامعہ اسلامیہ اوکھلا نئی دہلی کے قبرستان میں ہوئی۔
تخلیقات
۱۹۳۲ء ’’انگارے‘‘ (افسانوں کا مجموعہ)
۱۹۳۵ء ’’ بیمار ‘‘ (ڈراما)
۱۹۳۸ء ’’ لندن کی ایک رات ‘‘ (ناول)
۱۹۴۷ء ’’ اردو ہندی ہندوستان ‘‘ (لسانی مسٔلہ)
۱۹۵۱ء ’’ نقوش زنداں ‘‘ (خطوط کا مجموعہ)
۱۹۵۴ء ’’ ذکر حافظ ‘‘ (تنقید)
۱۹۵۹ء ’’روشنائی ‘‘ (ترقی پسند تحریک کی تاریخ اور تذکرہ)
۱۹۶۴ء ’’ پگھلا نیلم ‘‘ (نثری نظموں کا مجموعہ)
ترجمے
’’ آتھیلو ‘‘ (شیکسپیر)
’’ کنیڈذ ‘‘ (وولئیر)
’’ کاندیر ‘‘ (والٹئیر)
’’گورا ‘‘ (رابندر ناتھ ٹیگور)
’’پیغمبر‘‘ (خلیل جبران)
ان کے علاوہ سیاسی، سماجی اور ادبی موضوعات پر کم و بیش چالیس برس تک مضامی لکھتے رہے جو ہندوستانی اور بیرون ممالک کے اخباروں اور رسالوں میں شائع ہوئے اور ریڈیو پر نشر کئے گئے۔
اسفار: ۱۹۲۷ء سے ۱۹۷۳ء تک مندرجہ ذیل ممالک کا سفر کیا : -
برطانیہ، فرنس، بیلجیم، جرمنی، ڈنمارک، آسٹریا، اٹلی، سوئیٹزرلینڈ، روس، پولینڈ، چیکوسلاواکیہ، رومانیہ، بلغاریہ، ہنگری، مصر، الجیریا، لبنان، شام، عراق، افغانستان، کیوبا، ویت نام، سری لنکا،اور پاکستان۔
٭٭٭
’’شایدابھی پچاس سال تک ہمارا بنیادی مسئلہ عادلانہ معاشی زندگی ہی رہے گا۔اور اگر ایسا ہے تو پھر ادب بھی اسی فکر کے تحت لکھا جاتا رہے گالیکن ادب کے ساتھ محاسن و معائب کے ساتھ لزوم سے اس سوال کا جواب ملتا رہے گاکہ ہر نظریاتی ادب،ادب نہیں ہو سکتا اور ہرغیر نظریاتی ادب لازمی طور پر ادب ہو سکتا ہے۔کسی تخلیق کے ادبی اور غیر ادبی ہونے کا نظریہ سے زیادہ فنّیPerfectionismکو دخل ہے اور دخل رہے گا۔میں پوسٹ ماڈرن ازم کو مغربی دنیا کی حد تک ایک سامراجی ضرورت خیال کرتا ہوں۔ظاہر ہے کہ معاملہ اس قدر گھمبیر ہے تو پھر اس کے ثقافتی اور ادبی متعلقات بھی ہیں۔ہمارے منطقہ نے مغرب کی منڈی بنے رہنے کا پروگرام بنا رکھا ہے تو پھر ہم مغربی Intellectualism کی منڈی بھی بنے رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔
سماجی،معاشی اور سیاسی تناظر میں ادب پاروں کی تفہیم جو ایک طرح Inter-discipilinaryفریضہ ہے،سب سے اہم اور موزوں مکتبِ فکرہے اور یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم زندگی کے ہر شعبہ میں سماجی،معاشی اور سیاسی فکر سے کام لیں اور صرف فنونِ لطیفہ کو اس تناظر سے محروم کر دیں۔اگر ایسا ہوا تو یہ بڑی حد تک نا مناسب فیصلہ ہوگا۔البتہ یہ شرط کہ ادبی تخلیقات بنیادی طور پر ادب کی کسوٹی پر پورا اتریں،صحیح خیال ہے۔خواہ یہ کسی بھی مکتبِ فکر کی طرف سے پیش کی جائیں۔‘‘ ڈاکٹر محمد علی صدیقی
(بحوالہ ادبی کتابی سلسلہ حریمِ ادب،بوریوالا۔شمارہ ۳۔صفحہ نمبر ۲۲۱)