عبد القیوم شمسی
سجاد ظہیر کا نام آتے ہی فوراَ جو خیال دل میں آتا ہے وہ ہے ترقی پسند تحریک۔ یوں تو ترقی پسند تحریک کی نشوونما میں، اور اسے مستحکم کرنے میں بہت سے لوگوں نے اہم رول ادا کیا مگر سجاد ظہیر کا نام اس تحریک سے ایسے ہی جڑا ہے جیسے کہ’’ ایک سکّے کے دو پہلو۔‘‘ یہ نہ صرف تحریک کے بانی تھے بلکہ معمار بھی تھے اور محتسب بھی۔ محتسب ان معنوں میں کہ جب جب ترقی پسندوں نے ذرا بھی شدّت اختیار کی، ادب میں مقصدیت اور فکر کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی، فن کو مجروح کرنا چاہا، ایسے میں سجاد ظہیر نے اپنی تحریر اور تقریر دونوں سے چابک لگایا، خبر دار کیا اور نصیحت دی۔
ترقی پسند تحریک کیوں شروع ہوئی اور اس کی ضرورت کیا تھی یہاں ہمیں اس سے بحث نہیں۔ یہ ایک وسیع موضوع ہے اور اس کے لیے ایک طویل مضمون الگ سے درکار ہے۔ بہر حال ہم سجاد ظہیر کو تحریک کے حوالے سے دیکھیں گے۔ سجاد ظہیر جنھیں بنّے بھائی کے نام سے جانا جاتا ہے ۵نومبر ۱۹۰۵ء کو لکھنؤ کے ایک رئیس اور با اثر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آبا و اجداد کا تعلق مشرقی یوپی کے ضلع جونپور سے تھا۔ دادا سید نظیر حسن جو کہ ایک بڑے زمیندار تھے ترکِ وطن کر کے لکھنؤ میں سکونت پزیر ہوئے اور یہاں بھی ان کا شمار معدودے چند اُمراء میں تھا۔ والد سید وزیر حسن وکیل تھے، بعد میں جج بنے اور انگریزی حکومت نے انھیں ’سر‘ کے خطاب سے نوازا۔ ایک بھائی سائنس دان ہوئے تو ایک بھائی منسٹر۔ یہاں مقصد سجاد ظہیر کے خاندان کا قصیدہ پڑھنا نہیں، بلکہ یہ دکھانا ہے کہ ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا شخص کس طرح اس کام میں دلچسپی لینے لگا جس سے اس کا تعلق ہی نہ تھا۔ نہ مفلسی کا اسیر، نہ ظلم کی آنچ اور نہ ہی استحصال کا شکار۔ مگر جب سجاد ظہیر حصولِ علم کے لیے یورپ گئے تو دماغ کے ساتھ ساتھ آنکھیں بھی روشن ہونے لگیں۔ جس بات کا احساس انھیں ہندوستان میں نہیں ہوا تھا اسے لندن میں محسوس کرنے لگے۔ جب تک اپنے وطن میں رہے زمینداری اور سرمایہ داری کے آہنی اصول و ضوابط کے بیچ پلے۔ جہاں پہلے ہی سے طے ہوتا ہے کہ کن کن لوگوں سے ملنا ہے اور کن کن سے نہیں۔ کس طرح کے لڑکوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا اور کھیلنا ہے اور کس کے ساتھ نہیں۔ یہ تفریق شرافت اور ایمان و ایقان کے مدّ نظر نہیں تھی بلکہ نسل اور حیثیت کے تابع تھی۔ ایسے ماحول میں اپنے آس پاس کی تکلیفیں، ظلم و جَور، فاقہ کشی اور طبقاتی فاصلے سے ہم آہنگی نہیں ہو سکتی تھی۔ مگر قدرت نے مزاج اچھا دیا تھا، طبیعت میں حساسیت تھی اور سینے میں درد مند دلِ دھڑکتا تھا۔ ایسے میں جب یورپ گئے تو وہاں پر ان کا سابقہ جرمنی سے نکالے گئے ان مظلوموں سے ہوا جو فاشزم کے شکار تھے۔ حق گو تھے اور آزادی پسند۔ سجاد ظہیر نے وہاں کے اخباروں میں یہ بھی دیکھا کہ ظلم کے قصّے کس طرح لذت اور چاشنی کے ساتھ بیان کئے جا رہے ہیں۔ ’یادیں‘ میں وہ لکھتے ہیں۔
’’یہ جو (مجھے) معلوم ہوتا تھا کہ ایک زمانہ مِٹ رہا ہے اور ایک دوسری زندگی کے پیدا ہونے کے آثار ہیں، اُس کا نقشہ ہر گھڑی رہتا تھا۔ یہ اِس لیے نہیں کہ میں کوئی غیر معمولی سمجھ کا نوجوان تھا، اس لیے بھی نہیں کہ میرا دل دنیا کے دکھ کو دیکھ کر بے چین ہو گیا تھا۔۔۔وہ وقت، وہ زمانہ ہی کچھ ایسا تھا۔۔۔۔ہم کو لندن و پیرس میں جرمنی سے بھاگے یا نکالے ہوئے لوگ روز ملتے تھے۔ فاشزم کے ظلم کی درد بھری کہانیاں، ہر طرف سُنائی دیتیں۔جرمنی میں آزادی پسندوں اور کمیونسٹوں کو سرمایہ داروں کے غنڈے طرح طرح کی جسمانی اذیتیں پہنچا رہے تھے۔وہ ہولناک تصویریں جس میں عوام الناس کے ہر دل عزیز لیڈروں کی پیٹھ اور کولھے کوڑوں کے نشانوں سے کالے پڑے ہوئے تھے۔ وہ خوفناک واقعات جو وقتاَ فوقتاَ کسی بڑے کمیونسٹ لیڈر کے، جلّاد کے ہتھوڑے سے سر قلم ہونے کے بارے میں اخباروں میں چھپتے۔ وہ اندوہ ناک اندھیرا جو علم و ہنر کی اس چمکدار دنیا سے جس کا نام جرمنی تھا، پھیلتا ہوا سارے یورپ پر اپنی ڈراؤنی پرچھائیں ڈال رہا تھا، ان سب نے ہمارے دل و دماغ کے اندرونی اطمینان اور سکون کو مٹا دیا تھا۔‘‘
ایسے میں ان کا ذہن اپنے وطن ہندوستان کی طرف چلا جاتا تھا، جہاں یورپ جیسی حالت تو نہیں مگر کچھ ایسی ہی تصویر ضرور تھی۔ غلامی، مظلومیت اور غریبی۔ یوروپی اخباروں میں ہندوستانیوں پر ڈھائے گئے ظلم کو خوشی خوشی اور بہ اندازِ فاتح لکھا جاتا تھا۔ ہندوستانیوں کی کوئی وقعت نہیں تھی اور انھیں بد تہذیب اور بدشعور تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس کی بہترین عکاسی سجاد ظہیر نے اپنے ناولِٹ، ’لندن کی ایک رات‘ میں کیا ہے۔ بہر حال یورپ کے فاشزم اور ہندوستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے سجاد ظہیر اور ان کے ساتھیوں کے سامنے، اُس وقت محض ایک نظریہ تھا جو ان سب پریشانیوں سے لوہا لے سکتا تھا اور وہ تھا(۔۔۔۔)’’اشتراکی نظریہ‘‘۔ اشتراکیت کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ اُس وقت یہ نظریہ بڑے بڑے ادیبوں، شاعروں، فنکاروں اور مفکروں میں خاصا مقبول تھا اور سرمایہ داری نظام اور اس کے مظالم کے خلاف لوگ اسے کار آمد ہتھیار مانتے تھے، اس کا اثر سجاد ظہیر پر بھی ہوا۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’ہم رفتہ رفتہ سوشلزم کی طرف مائل ہوتے جا رہے تھے۔ ہمارا دماغ ایک ایسے فلسفے کی جستجو میں تھا جو ہمیں سماج کی دن بہ دن بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور ان کو سلجھانے میں مدد دے سکے۔ ہمیں اس بات کا اطمینان نہیں ہوتا تھا کہ انسانیت پر ہمیشہ سے مصیبت اور آفتیں رہی ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ مارکس اور دوسرے اشتراکی مصنفین کی کتابیں ہم نے بڑے شوق سے پڑھنا شروع کیں۔ جیسے جیسے ہم مطالعے کو بڑھاتے، آپس میں بحثیں کر کے تاریخی، سماجی اور فلسفیانہ مسٔلوں کو حل کرتے، اسی نسبت سے ہمارے دماغ روشن ہوتے اور ہمارے قلب کو سکون ہوتا جاتا تھا۔‘‘
(یادیں)
اور پھر سوشلزم سے متاثر ہوتا یہ ذہن، اور روشن ہوتے دماغ نے اپنے ہی جیسے چند ان طلباء کو جو یورپ میں ہی زیر تعلیم تھے اور کم از کم انسانی مساوات اور وطن کی آزادی کے متعلق ہم خیال تھے سب کو اکٹھا کیا اورایک انجمن کی تشکیل کی جس کا نام Indian Progressive writers Associationرکھا۔ ڈاکٹر ملک راج آنند اس کے صدر اور سجاد ظہیر سکریٹری چنے گئے۔ یہ ساری کاروائی لندن کے ایک چینی ریستوراں ’نانکنگ‘ میں ۱۹۳۵ء میں ہوئی۔ ملک راج آنند اور سجاد ظہیر کے علاوہ محمد دین تاثیر، ڈاکٹر جیوتی گھوش، پرمود سین گپتا وغیرہ نے اس نشست میں منظور اعلان نامہ پر دستخط کیے۔ سجاد ظہیر کی کوششوں سے لندن میں اس انجمن نے کئی نشستیں منعقد کیں۔ انھوں نے اپنا ڈرامہ ’بیمار‘ یہیں پڑھا۔
سجاد ظہیر اُس بین الاقوامی کانگریس میں بھی شریک ہوئے جو ’کلچر کے تحفظ‘ کے نام پر جولائی ۱۹۳۵ء میں پیرس میں ہوئی۔ یہ ادیبوں اور شاعروں اور فنکاروں کی ورلڈ کانفرنس تھی جس میں ہینری باربس، آندرے مارلو، ٹامس مان، میکسم گور کی، روماں رولاں اور والڈ و فرینک جیسی ہستیاں شامل تھیں۔ پیرس میں ہی سجاد ظہیر کی ملاقات لوئی آراگاں سے ہوئی۔ سجاد ظہیر نے اس سے ترقی پسند تحریک کو ہندوستان میں شروع کرنے کی بات کہی اور ادیبوں کی تنظیم کے تعلق سے سوال پوچھا۔ لوئی آراگوں نے جو جواب دیا اُسے ملاحظہ فرمائیے۔ اس نے کہا۔
’’ یہ نہ پوچھئے ! ادیبوں کی تنظیم سے بڑھ کر دنیا میں اور کسی جماعت کی تنظیم نہیں۔ ہر ادیب اپنا راستہ الگ نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاہم ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہیئے۔ زمانے کے حالات خود ادیبوں کو اپنے آرٹ کی حفاظت اور ترقی کے لیے تنظیم کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ‘‘
(یادیں)
اور دُھن کے پکّے ’بنّے‘ بھائی نے اس مشکل کام کو کرنے کا مضبوط ارادہ کر لیا کیونکہ آراگاں نے جو نصیحت کی تھی اس کا آخری حصہ یہ خوش خبری دے رہا تھا کہ اب وہ حالات ہیں کہ جس میں ادیب و شاعر اپنی انانیت پر دنیا کے مسائل کو ترجیح دیں گے۔ اور پھر سجاد ظہیر نے لندن میں منظور مینی فِسٹو کو ہندوستان میں اپنے دوستوں کو اس ہدایت کے ساتھ بھیج دیا کہ -- ’’اسے بزرگ اور معتبر ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے سامنے پیش کر کے ان کے خیالات جانے جائیں اور کوشش کی جائے کہ لوگ اس سے اتفاق کریں اور اس پر دستخط کر دیں۔‘‘ اس نیک کام میں سجاد ظہیر کو مایوسی نہیں ہوئی۔ مینی فسٹو پر سب سے پہلے جن تین بہت اہم اور بزرگ شخصیتوں نے اپنی مُہر لگائی وہ تھے مولوی عبد الحق، منشی پریم چند اور جوش ملیح آبادی۔ انھیں لوگوں کے ساتھ ’’زمانہ‘‘ کانپور کے مدیر منشی دیا نارائن نگم نے بھی اس پر رضا مندی درج کی۔ یہ سارے کام الہ آباد میں سجاد ظہیر کی موجودگی میں طے پائے اور اس کے بعد سجاد ظہیر، رشید جہاں کے ساتھ پنجاب کے لیے روانہ ہو گئے کہ اُس ادب خیز زمین پر بھی تحریک کا پودا لگایا جائے۔الہ آباد میں انھوں نے اپنے پیچھے احمد علی، فراق گورکھپوری اور پروفیسر اعجاز حسین کو بطور نائب سمجھا ۔علی گڑھ میں ڈاکٹر اشرف، امر تسر میں محمود الظفر،کلکتہ میں ہیرن مکھرجی اور حیدرآباد میں سبطِ حسن اس کام کو آگے بڑھانے میں مصروف ہو گئے۔
سجاد ظہیر کی کوششوں سے اپریل ۱۹۳۶کا وہ تاریخی دِن بھی آیا جس روز ادب نے اپنا رشتہ سماج اور سیاست سے جوڑااور ادیب سے کہا گیاکہ وہ اپنے انفرادی مسکن سے باہر نکلے اور بذریعہ قلم و فکر عوام اور سیاست کی رہنمائی کرے۔ ایسا نہیں ہے کہ ابھی تک ادیب و شاعر بے حِس و بے نوا تھا، انفرادی طور پر ہر دور میں اور بیشتر زبان میں ایسی کوششیں ہوتی رہی تھیں، مگر ہندوستان میں جو کہ مختلف اللسلان ملک ہے کسی ایک بینر کے نیچے منظم اور شعوری طریقے سے یہ کام پہلی بار ہو رہا تھا جس کا سہرا سجاد ظہیر اور ان کے رفقاء کے سر پر بندھتا ہے۔
ترقی پسند ادبی تحریک کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ادب کو عوامی مسائل کا ترجمان بنایا جائے۔ ابھی تک ادب خیالی دنیا کی سیر کراتا تھا، آہیں بھرتا اور بھرواتا تھا، قصیدہ خوانی کرتا اور حیرت انگیز واقعات کو مافوق الفطرت کرداروں کے ذریعہ کرتب دکھا کر قاری کو مسحور کرتا تھا۔ یہ رجحان ادب پر غالب تھا مگر اس تحریک نے اس کا رُخ موڑا ور اب اسے غریبوں، کسانوں، مزدوروں اور مظلوموں کی بھی طرف دیکھنا تھا۔ اِن کے فاقوں کو دیکھ کر سسکنا تھا اور ظلم کے گھاؤں کو دیکھ کر سِہرنا تھا۔ یہ محض نقل اتارنے کی بات نہ تھی بلکہ اسے دل سے محسوس کر کے، اِس سے نجات پانے میں فکری طور پر اُن کی مدد کرنی تھی۔ اپنی تخلیق اور شاعری میں اسے جگہ دینی تھی، اور ہوا بھی یہی لیکن یہیں ادب، برائے ادب ہو کہ برائے زندگی کے مسٔلے پر اختلاف بھی شروع ہو گیا۔ ترقی پسندوں پر یہ الزام عائد ہونے لگا کہ وہ مقصد کو پورا کرنے کے لیے فن کا ریزہ ریزہ کر رہے ہیں۔ میں نے شروع ہی میں کہا کہ سجاد ظہیر صرف بانی ہی نہیں بلکہ وقتاَ فوقتاَ محتسب بھی تھے اور بوقت ضرورت تنبیہ بھی کیا کرتے تھے۔ جب ترقی پسندوں میں مقصدیت نے زور پکڑا تو سجاد ظہیر نے لکھا کہ ۔
’’شاعر کا پہلا کام شاعری ہے۔واعظ دینا نہیں۔ اشتراکیت و انقلابیت کے اصول سمجھانا نہیں۔ اصول سمجھانے کے لیے کتابیں موجود ہیں، اس کے لیے ہم کو نظمیں نہیں چاہیں۔ شاعر کا تعلق جذبات کی دنیا سے ہے۔ اگر وہ اپنے تمام ساز و سامان تمام رنگ و بو، تمام ترنم وموسیقی کو پوری طرح کام میں نہیں لائے گا، اگر فن کے اعتبار سے اس میں بھونڈا پن ہوگا، اگر وہ ہمارے احساسات کو لطافت کے ساتھ بیدار کرنے سے قاصر ہوگا تو اچھے سے اچھے خیال کا بھی وہی حشر ہوگا جو دانے کا بنجر زمیں میں ہوتا ہے۔‘‘(غلط رجحان شاہراہ)
یہ ہے سجاد ظہیر کا وہ خیال جس کے لیے غیر ترقی پسند بھی ان کا احترام کرتے ہیں۔ فن اور مقصد کو لے کر سجاد ظہیر انتہا پسند نہیں تھے وہ دونوں کا خوبصورت امتزاج چاہتے تھے۔ ان کا بہترین اخلاق، انکسار اور خوش گفتاری انھیں ہر دل عزیز رکھتی تھی اور یہ ہر دل عزیزی تنظیمی امور میں ان کی مددگار ثابت ہوئی۔
بہر حال سجاد ظہیر نے اپنی کوششوں، قربانیوں اور اپنی صلاحیت سے تحریک کو ایک مالی کی طرح سینچا اور عوام الناس کی بھلائی کے لئے جدو جہد کرتے رہے۔ یہ غریب کسانوں اور مزدوروں سے محبت ہی تھی کہ مصیبتیں برداشت کرتے رہے، جیلوں میں بند ہوتے رہے، نئی نویلی دلہن اور معصوم بچوں سے جدا ہوتے رہے مگر اپنے علم، اپنے عمل اور تنظیم و تحریک کے ذریعہ ان کی فلاح کے لیے کوشاں رہے۔ ہمیشہ لوگوں کے آنسو پونچھنے کی خواہش رکھنے والے ہر دل عزیز بنّے بھائی ، ترقی پسند تحریک کے جسم یعنی سجاد ظہیر ۱۳ ستمبر ۱۹۷۳کو خود دوسروں کو رُلا گئے۔
٭٭٭
’’ بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب ہر دور میں ترقی پسند ادب کی تخلیق ہوتی رہی ہے اور جب حالیؔ، شبلیؔ، اقبالؔ بھی ترقی پسند ہیں تو پھر آخر ترقی پسند مصنفین کی انجمن بنانے کی ضرورت کیا ہے؟
یہ سوال ایسا ہے کہ جب دنیا میں ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک پھول کھلتے رہے ہیں تو باغ لگانے کی
کیا ضرورت ہے؟ اس انجمن کی ضرورت اس وجہ سے پیدا ہوئی جس وجہ سے تمام دوسری انجمنوں کی ضرورت
ہوتی ہے یعنی یہ کہ افراد اجتماعی طور سے ادبی مسائل پر گفتگو اور بحث کریں، فرد اور جماعت کی ضرورت کو
سمجھیں، سماجی کیفیت کا تجزیہ کریں اور اس طرح مشترکہ نصب العین قائم کریں اور اس کے مطابق عمل
کریں۔کیا یہ اجتماعی کوشش انفرادی کوشش سے بہتر نہ ہوگی؟
(سجاد ظہیر کاخطبہ
ترقی پسند مصنفین کانفرنس،حیدرآباد۱۹۴۵ء)