ثروت خان
کسی رسالہ میں نور ظہیرؔ کا مضمون پڑھ رہی تھی۔اختتام تک پہنچتے پہنچتے سجاد ظہیرؔ کا سراپا حواس پر طاری ہوگیا۔ میں سوچنے لگی۔اگر وہ دوسرا جنم لے لیں تو ہم انھیں کیسے لگیں گے اور وہ ہمیں کیسے لگیں گے؟
بس اس سوال نے ذہن پر دستکیں دینا شروع کردیں۔ نور ظہیر نے لکھا کی ابّا کو کبھی غصّہ نہیں آتا تھا۔ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے،محمد اسد اﷲ نے بھی یہی بات لکھی ہے۔واقعی میں یہ بہت بڑا وصف ہے۔لیکن مجھے کامل یقین ہے کہ آج وہ بات بات پر غصّہ ہوتے، بلکہ لال پیلے ہو کر منہ سے جھاگ اگلنے لگتے۔رشید جہاں، محمود الظفر اور محمد علی سے کہتے:
’’ دوستو، اس زمانہ میں ’انگارے‘ کی نہیں بلکہ آتش فشاں کی ضرورت ہے۔ جس کا پگھلتا ہو ا لاوا اس غیر منظّم صورتِ حال کو جھُلساکر رکھ دے۔کاش ایسا ہوجائے اور ایک نئی دنیا پھر سے تعمیر ہو۔ دوستو، تمھیں یاد رہے، ہم نے کیسے کیسے خواب دیکھے تھے۔بیداری لانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ اپنی تمام زندگی جھونک دی تھی۔اپنا مقصدِ زندگی تو انقلاب تھا، ہندوستان کو بدلنا تھا،‘‘ لیکن آج ملک، سماج، تہذیب، اخلاق و ادب کی کیا صورت ہوگئی ہے، کیا حالت ہے۔ میں سخت حیران ہوں۔ ہم نے تو صدیوں سے متھے گئے ان خزانوں کو اپنے اسلاف کی جسمانی،ذہنی اور روحانی کاوش کا ثمر سمجھ کر اس کی حفاظت اور اس کے دانشمندانہ استعمال کے لئے تحریکیں چلائیں۔کیونکہ تہذیب کی یہی اقدار ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو سمجھنے اور اسے خوشگوار و بہتر بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ لیکن اقدار کی یہ پامالی۔ اُف۔خدایا مجھے کیوں دوبارہ جنم دے دیا۔ کیا یہی سب دیکھنے کے لئے۔میں نے تو کہا تھا کہ ادبی کاوش سے ہم عوام میں شعور، حس و حرکت،جوش و عمل اور اتحاد پیدا کرسکتے ہیں۔اور ہم نے کیا بھی۔ اسی کے ساتھ ان تمام رجحانات کی مخالفت میں زمین آسمان ایک کردیا تھا جو جمود، رجعت، پست ہمّتی سے پیدا ہوتے ہیں۔لیکن جب میں پورے سو برس بعد آیا ہوں تو دیکھ کر حیران،پریشان و پشیمان ہوں کہ نہ ادب و اخلاق کے وہ دھارے، وہ آبشار رہے اور نہ انھیں پڑھنے والے رہے۔سچ کہتا ہوں، رشید۔ میں نے کل ایک سیمینار میں دیکھا۔ نئی کتابیں ہاتھوں ہاتھ بکنے کے بجائے ہاتھوں ہاتھ دی اور لی جا رہی ہیں۔
’’ جی، ظہیر بھائی، بالکل سچ کہہ رہے ہیں۔ اور کتابیں بھی ہوں نگوڑی۔ بس ہر کوئی فنکار ، دانشور بنا بیٹھا ہے۔اور شاعر تو لاتعداد دیکھے۔ اور ان کے اپنے نجی نقاد اور مخصوص مدّاحوں کی اپنی روایتیں بھی دیکھیں۔ ہر اک اپنا مجموعہ لئے آتا ہے کہ صاحب اس پر رائے دیجئے، تبصرہ کیجئے۔ لاحول ولاقوۃ۔ کیا حماقت ہے۔بھائی فیضؔ، تم نے سچ کہا تھا کہ دورِ حاضرہ کی تنقید، محبتوں کا’’ چمتکار ہے‘‘ بلکہ اب تو محبتوں کے ساتھ مروّتوں کا لفظ بھی جوڑ دیں تو ناکافی ہی ہوگا۔
یہ آج کے انسان کو کیا ہوگیا ہے۔میری سمجھ سے باہر ہے محمود۔۔یہ اپنے خلاف خود ہتھیار اُٹھائے کھڑا ہے۔میں محسوس کر رہا ہوں کہ اس کے دل کی گہرائیوں میں کہیں غصّہ، ہوس، دنیاوی رنگینیوں کا کیچڑ ہے جس میں لتھ پتھ ہو کر یہ اپنے آپ سے شدید جنگ کر رہا ہے۔ بڑے تذبذب میں ہے۔ باہر نکلنے کی سعی بھی کرتا ہے تو اور گہرائی میں اُترتا چلا جاتا ہے۔ یہ غم و غصّہ آخر کیوں؟ مجھے جب اس سوال کا جواب معلوم ہوا تو میں نے دانتوں تلے انگلی دبالی۔ مسائل ہی مسائل۔ایسا نہیں ہے کہ یہ مسائل پہلے نہیں تھے،لیکن محمد علی سنو تو! اُس وقت تو ہم غلام تھے، آزادی بھی کن شرطوں پر ملی، وہ بھی ہم نے دیکھا، بھُگتا۔ لیکن اب تو اپنی حکومت ہے، اپنا جہان، اپنا آسمان ہے۔مگر معاشی و تہذیبی استحصال کا عروج بھی ہے۔ آخر کیوں؟ یہ ناقابل برداشت ہے، میرے بھائی!
’’ تم یہ دیکھو کہ ہندوستان کی آزادی کے ۵۶سال گزرنے کے باوجود ملک میں صرف ۳۰فی صد زمین پر ہی کاشت ہوتی ہے۔ باقی بنجر زمین کو زرخیز بنانے کے لئے کوئی اقدامات ہی نہیں اٹھائے گئے۔ محمود، آج سویرے سویرے اخبار دیکھا تو ایک رپورٹ دیکھ کر اخبار ہاتھ سے تقریباً چھوٹ سا گیا۔ تم بھی سنو۔ رپورٹ یہ تھی! کہ سن ۲۰۰۵ء کے مدِ نظر ہندوستان میں دو کروڑ پچاس لاکھ بچّے پیدا ہوئے جن میں ایک تہائی کمزور اور ستوانسے تھے۔ امریکہ میں یہ دَر صرف سات فی صد ہے۔ ہماری مرکزی حکومت صحت یابی خدمات پر کُل بجٹ کا دو فی صد ہی خرچ کرتی ہے۔آگے پڑھا تو آنکھیں اور پھٹیں۔ لکھا تھا۔ پیارے ہندوستان میں ایک ہزار بچوں میں سے ۷۶بچے اپنی پہلی سالگرہ اور ۱۱۵بچے اپنی پانچویں سالگرہ نہیں دیکھ پاتے۔‘‘
’’ خواتین کی حالت تو اور بدتر ہوگئی ہے، رشید جہاں بہن۔ میں پہلے بھی دنیا گھوم کر دیکھا کرتا تھا۔ اب بھی ادھر اُدھر گیا۔ دیکھا سمُوچا ایشیاء ہی نہیں بلکہ یورپ بھی اس کی زَد میں ہے۔ عورت کی قدر کہیں نہیں۔ رشید۔تم نے تو علم و عمل سے بڑے جرأت مندانہ اقدامات اٹھائے تھے تاکہ عورت کو سماج میں اس کا جائز مرتبہ مل سکے۔مجھے یاد آرہا ہے رشید کہ اپنے ایک مضمون میں تم نے کہا بھی تھا کہ ’’صرف باہر کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرکے وہ جب مردوں کے دوش بدوش زندگی کے تمام مشغلوں میں شامل ہوں گی تبھی وہ آزاد کہلائیں گی۔‘‘ لیکن جانتی ہو، اس آزادی کی وہ کِس طرح قیمت چکا رہی ہے۔ تم تو اپنے کاموں کے لئے اکیلی باہر نکلا کرتی تھیں۔ اتنی سخت مخالفت کے باوجود تمھارا ماشاء اﷲ بال بانکا نہیں ہوا۔لیکن آج کی خاتون تمھارے ان نقشِ قدموں پر چل کر گھر کی چہار دیواری سے باہر نکلی تو جانتی ہو اُس کے ساتھ کیا مسائل پیدا ہوئے۔ بالغ ہو یا نا بالغ، بچی ہو یا ضعیف۔ اس کی عصمت محفوظ نہیں۔اور جہاں عورت محفوظ نہیں، وہ دھرتی بھی محفوظ نہیں، ملک بھی، معاشرہ بھی، انسانیت بھی محفوظ نہیں۔ ہمارے مہان بھارت میں جانتی ہو رشید۔ ہر روز زِنا باالجبر کے ۴۱معاملے درج ہوتے ہیں۔ ۱۹خواتین کو جہیز کی خاطر موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے۔۳۱کا اغوا کیا جاتا ہے اور ۸۴کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔ یہی نہیں ہر ۵۴ویں منٹ میں ایک عورت کی عصمت دری ہوتی ہے۔ جس میں ہر سال ۲۰فی صد کی در سے اضافہ ہورہا ہے۔ کچھ محفوظ بھی ہیں تو انھوں نے بھی بد اعمالیوں کی مثالیں قائم کر دیں۔ ابتدائی تعلیم اور پنچائت راج کی زمہ داریوں میں ان کی شمولیت کی گئی تو غیر ذمہ دارانہ رویّہ انھیں لے ڈوبا۔اب بھلا تم ہی سوچو۔ جب پورا نظام ہی درہم برہم ہو تو ملک اور سماج کے لئے یہ صورتِ حال شرمناک اور تشویشناک نہ ہوگی تو کیا ہوگی؟
آج کئی دلاریاں چھٹپٹا رہی ہیں۔ کئی نسیمائیں فکر مند ہیں۔ کئی سِلویائیں، کئی گُجریائیں تلملارہی ہیں، مضطرب ہیں۔ معاشی و معاشرتی نظام کی بدعنوانیاں، ناہمواریاں، جبر، طبقاتی کشاکش اور درجہ بندی کی صلیبیں،ذات کا کرب، احساسِ تنہائی، جنسی نا آسودگی اور داخلیت کی شکست و ریخت۔ انسانی شخصیت کی مختلف جہات مثلاً جسمانی،ذہنی، اخلاقی، جذباتی،سماجی اور روحانی جہات میں توازن کا غیر متوازن ہونا۔ اور پھر ورکنگ مڈل کلاس کا مادّی وسیلوں سے زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش میں بے رحم بھاگ دوڑ، اس کے نتائج و مسائل۔اخلاقی تہذیبی صورتوں میں تبدیلی، سماجی ایجاب و قبول اور افکار کے ادب و آداب کی نئی تشکیل اور اس میں توازن۔ یہ اور ایسے ہی اور نکیلے اور چبھتے ہوئے سوالات ہیں جو ہم سے، تم سے،تمام ادیبوں سے، تمام دانشوروں سے جواب مانگ رہے ہیں۔میں نے تقریباً اپنی تمام تحریروں میں اس بات پر زور دیا تھا کہ :
’’ فنکار کی ذمہ داری ہے کہ انسانوں اور دماغوں میں جو تناؤ پیدا ہوتا ہے، اُن کا تخلیقی طور سے اظہار کرے جس کے معنی یہ ہیں کہ سماجی و نفسیاتی ارتقاء اور زوال کے عمل کی ماہئیت اور اندرونی کیفیت اور نازک پوشیدہ عمل اور ردِ عمل سے پیدا ہونے والی کیفیتوں کا شعور حاصل کرے اور اُس مستقبل کا بھی اندازہ کرے جو اس دور میں سماجی ارتقاء کی منزل ہے‘‘۔ اس لئے ضروری تھا کہ انسانی زندگی سے قریب ہوکر اس کے فکر و عمل کی تشریح و تعبیر ہوتی۔ لیکن یہ تو انسانوں کو چھوڑ کر صرف تھیوریاں بنانے یا اُن سے ادب کو آنکنے میں لگے ہیں۔ ایوارڈ حاصل کرنے کی آرزو میں نہ جانے کن کن حربوں کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ اکیڈمیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ تعریفوں کے پُل بندھوانے میں ایڈیٹرس کو کرید رہے ہیں۔اور وہ بھی خوشی خوشی بک رہے ہیں۔پکڑ پکڑ کر مضمون لکھواتے ہیں۔اپنے اپنے نقاد بھی پیدا کرلئے ہیں،بلکہ پال لئے ہیں۔ چند سنجیدہ اَہلِ نظر ہیں جو اپنی تحریروں، کوششوں و کاوشوں سے اِس آلودگی کو صاف کرنے میں کوشاں ہیں۔انھیں کے فکر و عمل پر اب تک اردو ادب کی بنیاد قائم ہے۔ورنہ عہد ساز بننے کی ہوس نہ جانے کیسی کیسی تحریکوں کو جنم دے چکی ہے۔ اور تحریکیں بھی کیا ہیں۔ ’’ چبائی ہوئی غذا کی جُگالی‘‘۔ اپنی اپنی ڈَفلی اپنا اپنا راگ۔ ادب کی فکر کِس کو ہے۔ میں تو باقاعدہ پوجا پاٹھ کا دور دورہ دیکھ رہا ہوں۔یہ ہُوا کیا۔ کل ہی میں نے دیکھا۔ کسی سنجیدہ اہلِ ادب اہلِ نظر نے حق کی بات کہی تو بے چارہ اکیلا پڑ گیا۔مجھے اپنا پُرانا دور یاد آگیا۔ ’’کہاں گیا ادیبوں،شاعروں کے درمیان کا اتفاق و اتحاد۔ کہ ایک کے ساتھ کئی کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔
مجھے اس ضمن میں سید محمد عقیل کی یہ بات اچھی لگی کہ :
ـ’’کیا ایسے میں ہمارے ادیب کبھی زندگی کی پنہائی اور اس کی مختلف الجہاتی کو سمیٹ سکتے ہیں۔کیا ادب کے بطون اور آگہی کی مختلف الالوانی کے عارف ہوسکتے ہیں۔؟
۔۔نہیں کبھی نہیں۔حالانکہ اس منفی اور مصنوعی رجحانات کی فراوانی اور بے پناہ کثرت کے باوجود اردو شاعری میں ایسی تخلیقات بھی جاری ہیں جن میں شاعری کی اصل روح ہے، جو مُثبت ہیں اور جن کا وجود یہ ثابت کر تا ہے کہ ہمارے اچّھے اور حسّاس شاعر اپنی عظیم ذمہ داریوں سے بے خبر نہیں ہیں۔‘‘
یہی حال فکشن کا بھی دیکھ رہا ہوں۔ شہر پھلا پھولا ہے۔ عصری حسیّت سے پُر۔لیکن آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہوں تو دیہات نظر نہیں آتا۔ ثقافت سے ناطہ ٹوٹ چکا ہے۔ شہری زندگی کے غلبہ نے موضوعات کا دائرہ محدود کردیا ہے۔ نہ محبت کی کہانی ہے، نہ نفسیات کے گہرے غاروں سے گُہر نکالنے کی سعی۔ عُجلت ہی عُجلت ہے۔ نقل میں ،عقل میں اور زندگی کے ہر شعبہ میں نام آوری اور شہرت کی بے صبری۔ نہ عملی اقدامات ہیں ، نہ حوصلوں میں عزم، استحکام نہ ولولہ نہ جذبات کی شیرینی۔ مٹھی بھر فنکار ہیں، جن کی جد و جہد، کشمکش جاری ہے۔لیکن اس سے کیا ہوگا؟
میں اب دوبارہ آیا ہوں، تو بہت کچھ کرنا ہے۔غیر منظّم کو منظّم بنانے کے لئے پھر سے ایک تحریک کی بنیاد ڈالنا ہوگی۔ پھر سے اپنا قلم، کاغذ لے کر، لکڑی کا اپنا پُرانا پھٹا ت،رچھا کرکے لکھنے بیٹھوں گا۔ نور ظہیر کی امّی صفائی کرنے آئیں گی توجھنجھلاکر کہوں گا۔
’’ کتنے مضامین لکھے تھے۔ کسی نے بھی سنبھال کر نہیں رکھے۔ اب ان کاغذوں کو نہ چھیڑو۔فائلوں میں ترتیب سے جمع کر رہاہوں۔شاید آنے والی نسلیں انھیں سنبھال کر رکھیں۔ اور کچھ سیکھیں۔‘‘
میں نے دیکھا۔نور ظہیرؔ کونے میں کھڑی، والدین کے اس عمل کو ٹکر ٹکر دیکھ رہی ہیں۔اور شاید یہی سوچ رہی ہیں کہ ’’اب امّی تو مسکراتی رہتی ہیں لیکن ابّا کو غصّہ کیوں آنے لگا۔‘‘
٭٭٭
مارچ ۲۰۰۵ء میں ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے،در اصل ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی جانب سے اردو کی بستیوں پر خصوصی سیمینار کرایا گیا۔اس میں نہ صرف کئی جعلی لوگ شریک ہوئے،بلکہ کئی جعلی لوگوں پر خصوصی مقالات لکھوائے گئے(اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے)۔میں نے بوجوہ اس تقریب میں شمولیت سے معذرت کر لی تھی،البتہ نارنگ صاحب کی فرمائش پر اپنا مضمون لکھ کر بھیج دیا تھا۔اب حال ہی میں میری ان سے ای میل کے ذریعے کچھ بات چیت ہوئی تو میں نے انہیں بتایا کہ یہاں تو اسی فی صد شاعر اور ادیب جعلی ہیں ۔(باقی بیس فی صد میں بھی کتنے ہیں جو جینوئن لکھنے والے ہیں اور کتنے ہیں جو بھرتی کے لکھنے والے ہیں،وہ ایک الگ موضوع ہے۔)یہاں مورخہ ۷؍جون ۲۰۰۵ء کو یعنی ایک ہی دن میں ہونے والی ہماری برقی خط و کتابت کا متعلقہ حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔میں نے اپنی ای میل میں لکھا:
’’میں اردو کی نئی بستیوں کا قائل نہیں ہوں،یہ صرف جعلسازی کے گڑھ ہیں۔یہاں دولت کے بَل پر %80جعلی لوگ شاعر اور ادیب بنے ہوئے ہیں۔یہ صورتحال اردو کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی اور بعض لوگ شاید یہی چاہتے ہیں‘‘.............اس کے جواب میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے مجھے لکھا:
AZIZ-E-MAN ! I AGREE WITH YOU ENTIRELY THAT MOST OF THE PEOPLE CLAIMING TO BE WRITERS ARE NOT WRITERS AND ONLY 20% ARE GENUINE WRITERS. THAT EXACTLY IS WHAT I MEAN TO HAVE SOME ARTICLES ON THOSE GENUINE WRITERS.
یہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انہوں نے میری بات سے اتفاق کیا،ان کی اس ای میل کے جواب میں اسی تاریخ کو میں نے پھر انہیں لکھا:’’آپ کے سیمینار میں باہر سے شامل ہونے والوں میں سے،یا جن پر مقالے لکھوائے گئے تھے کئی لوگ یا تو جینوئن لکھنے والے نہ تھے یا ان کی چوری اور جعلسازی کھلی ہوئی حقیقت تھی‘‘
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا حوالہ اس لیے دے رہا ہوں کہ وہ خود اکثر بیرون ممالک کے ادبی دوروں پر جاتے رہتے ہیں اور اسی حوالے سے سیمینار بھی کرا چکے ہیں اور کسی بھی پاکستانی یا ہندوستانی ادیب سے کہیں زیادہ وہ ان’’ بستیوں‘‘کی اصل ادبی اور علمی حقیقت جانتے ہیں۔سو ان کا ماننا کہ ان بستیوں میں صرف بیس فی صد جینوئن لوگ ہیں،سند کا درجہ رکھتا ہے۔(مکتوب حیدر قریشی مطبوعہ دو ماہی گلبن لکھنؤ شمارہ جولائی،اگست ۲۰۰۵ء)