جدید ادب کا یہ شمارہ ترقی پسند تحریک کے بانی ، ادیب ، ناقد، شاعر ، دانشور سجاد ظہیر (۲۰۰۵-۱۹۰۵) کے نام معنون ہے۔ یہ سال (۲۰۰۵) ہی ان کے نام سے منسوب ہو گیااور یہی وجہ ہے کہ امسال سجاد ظہیرکی صدی تقریبات اہتمام سے منائی گئیں اور منائی جا رہی ہیں۔ ہندو پاک ہی نہیں پوری اردو دنیا لندن ، کینڈا میں بھی سجاد ظہیر سے متعلق سیمینار کئے گئے اور مختلف انداز سے انھیں یاد کیا گیا۔ جدید ادب بھی اپنے آپ کو اس صف میں کھڑا پا کر مسرت اور افتخار محسوس کر رہا ہے۔
گذشتہ بڑے ادیبوں اور فنکاروں کو یاد کرنا ہماری روایت رہی ہے، ہماری تہذیب اور کبھی کبھی ہماری ضرورت بھی۔ لیکن یاد کرنے کے طریقے الگ الگ ہوا کرتے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی خاص موقع پر ان کی تصویر پر گلہائے عقیدت پیش کر دیں شمع روشن کر دیں دعائے مغفرت کریں اور بس۔۔ ۔ دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ہم باقاعدہ سیمینار جلسے وغیرہ میں تحریر و تقریر کے ذریعہ ان کے کاموں کا از سر نو جائزہ لیں اور آج کے تناظر میں ان کی ضرورت معنویت اور اہمیت کو سمجھیں اور سمجھائیں۔ یہ سچ ہے کہ سجاد ظہیر کی شخصیت اس قدر پر کشش اور مقناطیسی کیفیت رکھتی تھی کہ اکثر ہم عصر ان کی دلنواز شخصیت کے ہی گن گاتے نظر آتے ہیں۔ جسکی وجہ سے ان کے تخلیقی و تنقیدی ادب کو اس طرح نہیں جانچا پرکھا گیا جس کی بڑی ضرورت تھی۔ لیکن حال کے کئی سیمناروں میں مقالوں اور کتابوں میں ان کی شخصیت پر کم ادب پر باتیں زیادہ ہوئیں۔ نئے لوگ جنھوں نے سجاد ظہیر کو نہیں دیکھا یا کم دیکھا ان کے سامنے تو ان کا سرمایۂ ادب ہی ہے۔ یہ اچھی بات ہے اور اس سے زیادہ اچھی بات یہ ہوئی کہ دوسری زبانوں کے بالخصوص ہندی کے ادیب و ناقد اپنے ڈھنگ سے اور آج کے حوالے سے ان کے کاموں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا رویہ راست و معروضی ہے وہ جذباتی کم ہوتے ہیں اور اب ہم ہمیں بھی جذباتی ہوئے بغیر یہ سوچنا چاہئے کہ شعر و شاعری میں ڈوبے ہوئے اردو ادب میں سجاد ظہیر اپنے تخلیقی سفر کا آغاز فکشن سے کیوں کرتے ہیں؟ کیا انگارے کے افسانوں کو فنّی اعتبار سے کمزور کہہ کر نظر انداز کر دینا چاہئے؟ یا مخصوص اصلاحی روایت سے منحرف ہو کر اسے ایک با قاعدہ احتجاجی ادب کا نقطہ ٔ آغازسمجھنا چاہئے۔کم سے کم اردو افسانے کے حوالے سے۔ اسی طرح لندن کی ایک رات کو محض شعور کی رو کے حوالے سے اس کے فن کی تعریف کر کے آگے بڑھ جانا چاہئے یا اس کی تاریکی میں چھپی روشنی اور خاموشی میں زندگی کی ہلچل کو بھی محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔قدامت اور کلاسیکیت کے بہت حامی نہ ہونے کے باوجود سجاد ظہیر ذکر حافظ جیسی کتاب کیوں لکھتے ہیں؟ تمام تر صوفیانہ روایات کا احترام کرنے کے باوجود یہ ترقی پسند ادیب حالی، شبلی ، آزاد وغیرہ کی احیا پسندی سے کہاں الگ ہوتا ہے۔
اس کے باوجود وہ اپنی کانفرنس کی صدارت پریم چند جیسے مصلح اور آدر ش وادی سے کرواتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ادب کو سیاست ،جمہوریت ، فسطائیت وغیرہ سے دور رکھنے والے ادیبوں کو یہ تحریک کیا پیغام دیتی ہے۔عالمی ادیبوں کی مثالوں سے ہمیں کیا درس ملتا ہے۔ کس طرح رومان حقیقت اور حقیقت رومان میں تبدیل ہوتے ہیں۔ اور حقیقت کی یہ معرفت کس طرح ہمیں آج کی پیچیدہ اور بے رحم حقیقتوں سے جوڑتی ہے۔
آج ہم ایک بار پھر بدلی ہوئی شکل میں فسطائیت، صارفیت اور عالم کاری کے نظام میں داخل ہو چکے ہیں ۔ تشدد اور فرقہ واریت کے مکڑ جال میں ہم بری طرح الجھ چکے ہیں ۔ اس پر طرہ یہ کہ ادیب اور دانشور اپنا ادیبانہ اور دانشورانہ رول بھی فراموش کر چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں وہ ادیب و شاعر یاد آئیں گے جنھوں نے اپنا عیش و آرام قربان کرکے انسانیت و جمہوریت کی بقاء کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ سجاد ظہیر انھیں لوگوں میں سے ایک ہیں۔وہ چاہتے تو کیا سے کیا ہو سکتے تھے۔ مغرب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد مشرق کے عام انسانوں ۔ مزدوروں اور مفلسوں کے لئے نہ صرف کام کرنا بلکہ قلم اور قدم کے ذریعہ پوری ایک تحریک و تاریخ ترتیب دے دینا ایک یاد گار اور ناقابل فراموش عمل تو ہے ہی۔اس لئے سجاد ظہیر کو یاد کرنا اس پوری دانشورانہ تہذیب اور تاریخ کو یاد کرنا ہے جو صدیوں سے ہمارے صوفیوں، درویشوں اور دانشوروں کا کردار رہا ہے۔ ہمیں اس کردار اور جرأت کو پھر سے زندہ کرتے ہوئے اس آرٹ کلچر اور انسانیت کو بچانا ہے جس کے لئے ہمارے یہ بزرگ اپنا سب کچھ قربا ن کر گئے۔جدید ادب کا یہ مختصر سا شمارہ اسی بڑی حقیقت کا چھوٹا سا اظہار ہے لیکن یہ احساس ضرور ہے کہ ہم بھی اس صف میں کھڑے ہیں۔
ذاتی طور پر مجھے خوشی ہے کہ جدید ادب کے مدیر اور ممتاز شاعر و دانشور جناب حیدر قریشی نے میری تجویز پر غور کیا اور یہ ذمہ داری مجھ پر سونپ دی۔ ہر چند کہ یہ شمارہ سجاد ظہیر کے شایان شان نہیں تا ہم ایک قدم ضرور ہے جو ترقی پسند قلم کو مضبوط بنانے کے لئے اٹھایا گیا ہے۔
علی احمد فاطمی(مہمان مدیر)
’’ضروری نہیں کہ آپ ہر شعر میں انقلاب زندہ باد کہیں۔اگر آپ جمالیاتی طور پر کسی ایک شخص
کو ہیلدی بناتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ انقلاب سے دس ہزار گنا اچھی بات ہے۔اس طرح آپ کچھ
ایسا کریں کہ انسان جو آپ کے آس پاس ہے وہ صحت مند بنے۔حسن کے اعتبار سے،جذبے کے اعتبار سے،انسانیت کے اعتبار سے وہ مریض نہ بنے۔‘‘ مجروح سلطانپوری
عصری ادب ص۴۷، بحوالہ کتاب
تین ترقی پسند شاعر از پروفیسر علی احمد فاطمی