پروفیسر علی احمد فاطمی(الٰہ آباد)
سجاد ظہیر ایک ادیب تھے، پھر ایک تحریک ہوئے اور اب ایک تاریخ ہیں۔ لیکن ایک ادیب تاریخ کیسے بنتا ہے اس کے پیچھے بھی ایک تاریخ پوشیدہ رہتی ہے۔ آج اس تاریخ کو صرف اس لئے دہرانے کی ضرورت نہیں کہ اس سال (۲۰۰۵- ۱۹۰۵) ان کی پیدائش کا سوواں سال ہے بلکہ اس لئے بھی کہ ہم ایک ایسے دور اور ماحول سے گزر رہے ہیں جہاں شاعروں، فنکاروں اور ان کے کارناموں کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بھلا دینے کی کوشش کی جارہی ہے اور ایک نئی سوچ اور سنسکرت کو ہوا دی جا رہی ہے جو بنیادی طور پر ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی روایت اور ادب کو کنارے کر کے مادّہ پرست تہذیب کو کھلے عام ترغیب دی جا رہی ہے۔ انسانوں کو مذہب ، علاقہ اور طبقہ میں تقسیم کر کے انہیں گمراہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے چنانچہ آج بھی ہو رہا ہے اور اب تو اس میں تبدیلی اور ترقی کا غیر شعوری احساس بھی شامل ہو گیا ہے۔ سنجیدہ، حساس اور با خبر انسان اور ادیب کل بھی بے چین اور پریشان تھے اور آج بھی بے چین اور پریشان ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک دولت مند گھرانے کا نوجوان سجاد ظہیر (۱۹۷۳- ۱۹۰۵) جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے لندن تو جاتا ہے لیکن لندن میں رہنے والے ہندستانیوں
با الخصوص طالب علموں کا قریب سے مشاہدہ کرتا ہے جو زیادہ امیر اور جاگیر دار گھرانوں سے، تعلیم حاصل کرنے کم، عیش و عشرت کرنے زیادہ آئے تھے۔ لیکن یہ درد مندانسان اس ماحول میں دنیا کے حالات کو نزدیک سے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور چونکہ ادیب و تخلیق کا ر کا ذہن اور جذبہ لے کر آیا تھا اس لئے دنیا کی سیاست، طاقت اور سامراج وادی نظام کی اُتھل پتھل کو ادب میں تلاش کر رہا تھا اور چونکہ اردو ادب پر ہمیشہ سے ہی جاگیر داروں اور اوپری طبقہ کا تسلط رہا ہے۔ سماج، سیاست، احتجاج وغیرہ کی باتیں دیر سے اٹھتی رہی ہیں۔ پھر بھی ان دنوں غالب، حالی کی کوششوں سے چکبست اور اقبال کے یہاں راست طور پر سیاست اور انقلاب کی آواز سنائی دینے لگی تھی اور،
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
یا چکبست کا مصرع ’ نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے‘
نعرے کی شکل اختیار کر چکا تھا اور اردو شاعری میں بکھرا سماج اور بکھری بکھری سی سیاست داخل ہو چکی تھی لیکن ناول اور افسانے کی دنیا میں یہ گونج نہ تھی۔ پریم چند نے پہلی مرتبہ ’سوزِ وطن‘ کے ذریعہ انگریزوں کی مخالفت کی لیکن انگریز سرکار کی جابرانہ دھمکی اور نام کی تبدیلی کام کو بھی تبدیل کر گیا اور وہ ڈپٹی نذیر احمد، شرر اور راشد الخیری کے اصلاحی راستے پر چل پڑے۔ ایسا اس لئے بھی ہوا کہ وہ خود بھی کائستھ گھرانے کے شریف صلح پسند انسان تھے۔ پہلے آریہ سماجی ہوئے، پھر گاندھی وادی جہاں تشدد وغیرہ کا گزر نہیں تھا۔ اس لئے پریم چند کی کہانیوں میں طبقاتی تفریق اور جد و جہد کا شعور ملتا ہے لیکن راست طور پر احتجاج کم۔ وہ چوٹ تو کرتے ہیں لیکن وہ چوٹ نعرہ بنتی کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ پھر بھی پریم چند عظیم ہیں اور اس سے ان کی عظمت متاثر نہیں ہوتی۔ کہنا یہ ہے کہ پہلی بار جو کہانیاں انگارہ بن کر بہت کچھ جلا دینا چاہتی ہیں وہ سب کچھ پہلی بار انگارے کی کہانیوں میں ملتا ہے۔
انگارے (۱۹۳۲ء) میں سجاد ظہیر کے ذریعہ ترتیب دیا ہوا نو (۹)کہانیوں کا مجموعہ تھا۔ جس میں خود سجاد ظہیر کی پانچ کہانیاں (نیند نہیں آتی، جنت کی بشارت، گرمیوں کی ایک رات، دلاری، پھر یہ ہنگامہ) مثال ہیں۔ رشید جہاں کی ایک کہانی (دلّی کی سیر) اور ایک ڈرامہ(پردے کے پیچھے) احمد علی کی دو کہانیاں (بادل نہیں آتے، مہاوٹوں کی ایک رات) اور محمود الظفر کی ایک کہانی (جواں مردی) شامل تھیں۔ انگارے کے چھپتے ہی ایک ہنگامہ ہو گیا۔ جاگیردار، زمیں دار اور مذہبی طبقہ کی طرف سے جم کر مخالفت ہونی ہی تھی اس لئے کہ سجاد ظہیر کی کہانیوں میں گہرا طنز اور کاٹ تھی۔ اور بڑی نزاکت و جرأت کے ساتھ بلکہ کڑواہٹ کے ساتھ ان کے کھوکھلے رویوں کی پول کھولی گئی تھی۔ یہ پول کھولنے میں صرف جوانی کا جوش اور مذاق نہ تھا بلکہ ایک ترقی پسند اور احتجاج بھری سوچ تھی۔ ایک نظریہ تھا جو نوجوان سجاد ظہیر کے ذہن میں پرورش پا چکا تھا اس لئے کہ وہ نوجوانی میں ہی تحریک آزادی میں حصہ لے چکے تھے۔ انڈین نیشنل کانگریس (لندن برانچ) کے فعال رکن رہے اور ہندستانی طالب علموں کو جمع کرتے رہے۔ ۱۹۲۹ء میں انگلینڈ میں ہندستانی کمیونسٹ طالب علموں کا پہلا گروپ قائم کر چکے تھے۔ اور اس سے زیادہ یہ کہ سماج واد او رمارکس واد کے مطالعہ نے ان کے دل و دماغ میں آگ بھر دی تھی۔ جو آگے بڑھ کر انگارے کی شکل میں روشن ہوئی۔ انگارے کی کہانیوں میں سماج کی برائیوں، مولوی اور امیر طبقہ کے خلاف جو آواز ہے وہ ایسا پتھر ہے جس نے تالاب کے ٹھہرے اور گندے پانی میں ایک ہلچل مچا دی۔ ظاہر ہے کہ جب ہلچل مچی اور چھینٹیں پھیلیں تو ہائے توبہ مچنی ہی تھی۔ اردو کہانی کے سفر میں بھی انگارے میل کا پتھر کا ثابت ہوئی۔ پریم چند کی کہانیوں کے سماجی شعور اور انگارے کی کہانیوں کے جرأت بھر ے انقلابی شعور نے مل جل کر ایک نئی راہ بنائی جس پر کرشن چندر، منٹو، بیدی، عصمت، خواجہ احمد عباس،احمد ندیم قاسمی وغیرہ چل پڑے اور اردو کہانی دیکھتے دیکھتے مالا مال ہو گئی۔ یہ کہا جائے کہ ترقی پسند کہانی کاروں کے آنے ، انگارے کے چھپنے اور انجمن ترقی پسند مصنفین قائم ہونے سے خود پریم چند کے ذہن میں انقلابی تبدیلی آئی تو غلط نہ ہوگا۔ کفن اور گؤدان جیسی تخلیقات۔ ادب کا مقصد جیسا مضمون اس کی مثالیں کہے جا سکتے ہیں۔
۱۹۳۵ء میں جب فسطائی طاقتیں اپنے عروج پر تھیں تو دنیا کے بڑے بڑے ادیب و دانشور ادب اور ثقافت کے تئیں کستے شکنجے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور پیرس میں ایک بڑی کانفرنس ہوئی جس میں نوجوان سجاد ظہیر نے بھی شرکت کی اور دنیا کے بڑے بڑے ادیبوں اور دانشوروں مثلاَ گورکی، رال فاکس، روماں رولاں، ہینری باربوس و غیرہ سے ملاقات کی اور حرکت و حرارت ، جوش و ہمت میں سر شار ہو کر جب لندن واپس لوٹے تو ادیب دوستوں (ملک راج آنند، تاثیر، جیوتی گھوش، ہیرن مکھر جی وغیرہ )کے ساتھ انجمن ترقی پسند مصنفین کا خا کہ تیار کیا اور باقاعدہ ایک مینی فیسٹو بھی تیار کیا جس کی کاپیاں ہندوستان کے دوستوں کو بھیجیں۔ نومبر ۳۵ء میں وہ تعلیم مکمل کر کے واپس ہندستان آئے۔ ان کے والد الہ آباد ہائی کورٹ میں مشہور وکیل تھے اسی راہ پر سجاد ظہیر کو بھی لگایا لیکن سجاد ظہیر کے ذہن میں تو بہت سارے انقلابات رقص کر رہے تھے انھوں نے وکالت کے بجائے سیاست کی راہ پکڑی اور پنڈت جواہر لال نہرو کے قریب آئے اور کانگریس میں شامل ہو گئے۔ انہیں دنوں ہندوستانی اکادمی، الہ آ باد میں کوئی کانفرنس ہوئی جس میں شرکت کرنے پریم چند ، جوش، عبد الحق جیسے مشہور ادیب و شاعر الہ آباد آئے، سجاد ظہیر نے فراق گورکھپوری اور اعجاز حسین کی مدد سے اپنے گھر پر ایک نشست کا اہتمام کیا اور ان بزرگوں کو مدعو کیا۔ یہ لوگ آئے سجاد ظہیر نے نشست کا مقصد بیان کیااور انجمن کا مینی فیسٹو پڑھ کر سنایا۔ سب نے انجمن کے اغراض و مقاصد سے اتفاق کیا او مینی فیسٹو پر دستخط کر دئے۔ اس نشست کے انعقاد ،بزرگوں سے ملاقات اور انجمن کے مقاصد سے اتفاق نے نوجوانوں کے حوصلے بلند کر دئے اور انھوں نے ۳۰؍دسمبر ۱۹۳۵ء الہ آباد میں انجمن کی بنیاد ڈال دی اور یہ طے کیا کہ اپریل ۱۹۳۶ء لکھنؤ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس کی جائے اور پھر پوری تیاری، محنت و لگن کے ساتھ یہ کانفرنس لکھنؤ میں منعقد ہوئی، جس کی صدارت پریم چند نے کی اور اپنا فکر انگیز مضمون ادب کا مقصد بطور صدارتی خطبہ پیش کیا۔ اس کانفرنس کے انعقاد میں رشید جہاں اور ان کے شوہر محمود الظفر نے کلیدی رول ادا کیا اور جس میں حسرت موہانی اور ساغر نظامی جیسے مشہور و بزرگ شعرا کے علاوہ نوجوان ادیبوں و شاعروں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ سجاد ظہیر روشنائی میں لکھتے ہیں :
’’ہماری کانفرنس میں شریک ہونے والے دو ممتاز ادباء پریم چند اور حسرت موہانی بالکل دوسری طرح سے ہماری کانفرنس میں شریک ہوئے تھے اور ان کے علاوہ بہت سے نوجوان ادیب ملک کے دور دراز علاقوں سے روپئے کا خرچ قرض لے کر تیسرے یا ڈیوڑھے درجہ میں سفر کر کے لکھنؤ پہنچے تھے اور تکلیف دہ جگہوں پر ٹھہرے تھے ۔ پنجاب کے نمائندے فیض احمد فیض نے رشیدہ سے چپکے سے بتایا کہ ان کے پاس لکھنؤ آنے جانے بھر کا کرایہ تو تھا لیکن اب سگریٹ کے لئے جیب میں ایک پیسہ بھی نہیں ہے ------- بعد کے اجلاس میں جن لوگوں نے مقالے پڑھے ان میں احمد علی، محمود الظفر اور فراق تھے۔ بنگال کی انجمن کے سکریٹری نے جدید بنگالی ادب کے رجحانات اور بنگال میں انجمن کی تنظیم پر لکھی ہوئی ایک اچھی رپورٹ پیش کی۔ گجرات، مہاراشٹر، مدراس کی زبانوں کے نمائندوں نے ز بانی تقریریں کیں ------ کانفرنس کے آخری دن شام کے اجلاس میں منجملہ اوروں کے سوشلسٹ لیڈروں جے پرکاش نرائن، یوسف مہر علی، اند ولال یاجنک، کملا دیوی چٹوپادھیائے اور میاں افتخار الدین نے بھی شرکت کی۔ یہ لوگ اس زمانے میں ملک کے درمیانہ طبقے کے سوا ان روشن خیال نوجوانوں کی نمائندگی کرتے تھے جو سامراج دشمن انقلاب چاہتے تھے اور سوشلزم کے نئے نظریے کو اپنا تے تھے۔‘‘
اس انجمن کو ٹیگور، اقبال، سروجنی نائیڈو وغیرہ کی دعائیں اور نیک خواہشات حاصل ہوئیں۔ ایسے تاریخی اور انقلابی قدم سے انجمن کی دھوم مچ گئی اور دیکھتے دیکھتے ہر طرف انجمن ترقی پسند مصنفین کے چرچے ہونے لگے اور ہر ادیب و شاعر اپنے آپ کو ترقی پسند کہنے لگا۔ ترقی پسند ہونا مارکس پر باتیں کرنا ایک طرح سے ادبی فیشن اور چلن بن گیا۔ یہ سب اپنی جگہ پر لیکن سنجیدہ حلقے میں ایک بڑا سوال بھی کھڑا کیا گیا کہ جب آزادی کی تحریک کام کر رہی تھی جب اقبال، پریم چند جیسے بڑے شاعر و ادیب بڑا اور با مقصد ادب جنم دے رہے تھے تو پھر الگ سے انجمن کی ضرورت کیوں ؟ اس کا جواب ایک خطبہ میں سجاد ظہیر یوں دیتے ہیں :
’’بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب ہر دور میں ترقی پسند ادب کی تخلیق ہوتی رہی ہے اور جب حالی ، شبلی اور اقبال بھی ترقی پسند ہیں تو پھر آخر ترقی پسند مصنفین کی انجمن بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟
یہ سوال ایسا ہی ہے جب دنیا میں ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک پھول کھلتے رہے ہیں تو باغ لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس انجمن کی ضرورت اسی وجہ سے ہوئی جس وجہ سے دوسری انجمنوں کی ہوتی ہے یعنی کہ انسان اجتماعی طور پر ادبی مسائل پر گفتگو اور بحث کریں۔ انسان اور جماعت کو سمجھیں، سماجی کیفیت کا تجزیہ کریں اور اس طرح مشترکہ نصب العین قائم کریں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ یہ اجتماعی کوشش انفرادی کوشش سے بہتر ہوگی۔‘‘
اسی درمیان سجا د ظہیر کا ناولٹ ’لندن کی ایک رات‘ (۱۹۳۸ء) شائع ہو کر مشہور ہوا۔ لندن میں اقامت پذیر ہندستانیوں باالخصوص طالب علموں کی سوچ اور رویوں میں ڈوبا یہ ناول اپنے موضوع اور اسلوب کے رخ سے انوکھا اور الگ سا تھا۔ اس نے اپنی شہرت کی ایک مثال قائم کی جس نے تخلیق کار سجاد ظہیر کو الگ مستحکم شکل اور حیثیت عطا کی۔ تقریباَ ۷۰برس گزر جانے کے باوجود آج بھی یہ ناول اردو کے منتخب و معیاری ناول میں شمار کیا جاتا ہے۔ پروفیسر قمر رئیس کا خیال ہے کہ :
’’تکنیک کی نظر سے یہ ایک انوکھی تخلیق ہے۔ محض ایک رات میں لکھا گیا یہ ناول سامراج وادی نظام پر گہرا طنز کرتا ہے۔ زبان و بیان اور فلیش بیک کی تکنیک نے اسے زندہ جاوید کر دیا۔‘‘ خود سجاد ظہیر نے ایک جگہ اچھی بات کہی :
’’انسانی زندگی کا دائرہ صرف عشق و محبت تک محدود نہیں ہے۔ کیا اس کے علاوہ بہت سے مسائل اور بھی بہت سی دلچسپ اور غیر دلچسپ چیزیں نہیں ہیں جن سے ہم وابستہ ہیں۔ ان چیزوں کو چھوڑکر ہم خلائے محض میں رہ کر عشق نہیں کر سکتے۔‘‘
یہی سجاد ظہیر کی فکر اور فلسفہ تھا جو انہیں سوشلزم کی طرف لے گیا۔ اور وہ ایک نظریاتی سیاست یعنی کمیونسٹ پارٹی اور نظریاتی ادب یعنی انجمن ترقی پسند مصنفین میں ڈوبتے چلے گئے اور اپنی کوششوں سے دونوں کو قریب بھی کرتے گئے ۱۹۳۶سے ۱۹۴۵ء تک لگاتار بڑی بڑی کانفرنسیں کیں جو دلی، بمبئی، حیدرآباد، کلکتہ جیسے شہروں میں ہوئیں۔ اسے وقت کی ضرورت کہیئے یا سجاد ظہیر کا کارنامہ۔ ہندی، اردو، پنجابی، بنگالی وغیرہ کے ادیبوں کا میلہ سا لگ گیا۔ ایک بھیڑ امنڈ پڑی سب انجمن سے وابستہ ہوتے چلے گئے۔ اور انجمن ترقی پسند مصنفین جلد ہی تحریک میں بدل گئی۔ ایک ایسی ادبی تحریک جس کا دہائیوں سے انتظار تھا، جس نے صدیوں کا غبار دھو دیا، جس نے حال کی دھند مٹا دی، جس نے مستقبل کے لئے راستہ صاف کر دیا۔ جس نے نہ صرف ادب بلکہ تمام ادبی اصناف کے خانے اور جالے صاف کر دیئے۔ جس نے تنقید کو ایک وقاراور وژن بخشا۔ جس نے سفر نامے، افسانے، رپورتاژ وغیرہ کو جلا بخشی، خطوط نگاری کو بھی نئی پہچان دی۔ ان سب میں سجاد ظہیر کا بڑا اور برابر کا رول ہے۔ آزادی کی تحریک میں وہ جیل بھی بھیجے گئے۔ اسی زمانے میں انھوں نے جیل سے اپنی بیوی اور مشہور افسانہ نگار رضیہ سجاد ظہیر کو خطوط لکھے جو بعد میں نقوشِ زنداں (۱۹۴۲) کے نام سے شائع ہوئے۔ ۱۹۴۲میں جب کمیونسٹ پارٹی سے پابندی ہٹائی گئی تو سجاد ظہیر نے پارٹی کے لئے کھل کر کام کیا اور پارٹی کے اخبار‘قومی جنگ‘ اور ’نیا زمانہ‘ کو ترتیب دیتے رہے۔ ۱۹۴۲سے ۱۹۴۷تک وہ انجمن کو منظّم کرنے اور ملک کی دوسری زبانوں کے ادیبوں کو جوڑتے رہے اور اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ ہندی کے بڑے بڑے ادیب و دانشور مثلاََ رام بلاس شرما، راہل، یشپال، امرت لال ناگر، بھیشم ساہنی، شیودان سنگھ چوہان، نامور سنگھ ، امر کانت، بھیرو پرساد گپت، مارکنڈے وغیرہ سبھی انجمن سے جڑے رہے۔
تقسیم ہند کے بعد وہ کمیونسٹ پارٹی کے فیصلے پر پاکستان چلے گئے اور وہاں پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ پاکستان کے طالب علموں، مزدوروں کے درمیان کام کیا اور تقریباَ تین سال انڈر گراؤنڈ رہے ۔ ۱۹۵۲میں راولپنڈی کے ایک کیس میں پاکستان حکومت نے سجاد ظہیر کو گرفتار کر لیا اور تقریباَ چار سال تک جیل میں رکھا۔ اسی تنہائی اور تخلیق کے عالم میں انھوں نے دو بڑی کتابیں لکھیں۔ پہلی روشنائی جو ترقی پسند تحریک کی تاریخ ہے ، جو اپنے مزاج کی بے پناہ عمدہ اور دلچسپ کتاب ہے۔ جس کی اپنی ایک تاریخی حیثیت ہے جو آج بھی پڑھی اور پسند کی جاتی ہے۔ اسی سال (۱۹۴۵) ایک اور کتاب ذکر حافظ بھی چھپی جو فارسی شاعر حافظ شیرازی پر تنقید کی حیثیت سے جانی گئی۔ ۱۹۵۶ء میں ہندوستان آنے کے بعد انھوں نے ایک بار پھر انجمن کو منظّم کیا اور اس محاذ پر فعال ہوئے۔ ۱۹۵۸ء میں تا شقند میں منعقد پہلی افروایشین رائٹرز کانفرنس میں شرکت کی اور اس تنظیم کی ہندوستانی شاخ کے سکریٹری بنائے گئے۔ ۱۹۵۹ء میں وہ ترقی پسند ہفتہ وار ’عوامی دور‘ کے مدیر اعلیٰ بنائے گئے اور سیاسی و سماجی مضامین لکھتے رہے۔ بعد میں اخبار ’حیات‘ میں بدل گیا جو آج بھی پارٹی سے نکلتا ہے۔ سجاد ظہیر ایک کامیاب اور سلجھے ہوئے صحافی تھے۔ ہندوستان کی صحافت میں بحیثیت ایک بائیں بازو کے صحافی ان کا شمار پہلی صف میں کیا جائے گا۔ ۱۹۶۲سے ۱۹۷۰تک وہ مختلف کانفرنسوں میں شرکت کرتے رہے۔ ملک کے اندر اور ملک کے باہر بھی۔ اسی درمیان ان کو شاعری کا بھی شوق ہوا اور انھوں نے آزاد نظمیں کہیں۔ ۱۹۶۴میں ’پگھلا نیلم‘ نام کا نظموں کا مجموعہ شائع ہوا ۔ لوگوں نے ان آزاد نظموں پر بڑے اعتراضات کئے تو انھوں نے یہ جواب دیا:
’’مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اگر کوئی شاعری سے متعلق اپنے روایتی تصورات سے مجبور ہو کر ان نظموں کو نثری شعر کہتا ہے۔ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ اصل اور اچھی شاعری بحر، وزن یا قافیہ کی پابندی کے ساتھ بھی کی جا سکتی ہے اور کی بھی گئی ہے اور ان کے بغیر بھی۔‘‘
۱۱۔۱۲ستمبر ۱۹۷۳کو الماتا (روس) میں بھارت،پاکستان،بنگلہ دیش کے ادیبوں کی کانفرنس میں شرکت کرنے گئے وہیں ۱۳دسمبر ۱۹۷۳کو دل کا دورہ پڑا اور اسی دن وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی موت پر دنیا میں سوگ منایا گیا ۔ فیض نے سجاد ظہیر کی موت پر بڑی اچھی اور پر اثر نظم کہی
نہ اب ہم سا تھ سیر گل کریں گے
نہ اب مل کر سرِ مقتل چلیں گے
حدیثِ دلبراں باہم کریں گے
نہ خونِ دل سے شرحِ غم کریں گے
نہ لیلائے سخن کی دوست داری
نہ غم ہائے وطن کی اشک باری
سنیں گے نغمۂ زنجیر مل کر
نہ شب بھر مل کے چھلکائیں گے ساغر
بنامِ شاہد نازک خیالاں
بیادِ مستیِ چشمِ غزالاں
بنام انبساطِ بزمِ زنداں
بیادِ کلفت ایام زنداں
صبا اور اس کا اندازِ تکلم
سحر اور اس کا انداز تبسم
فضا میں ایک ہالہ سا جہاں ہے
یہی تو مسند پیر مغاں ہے
سحر گہ اب اسی کے نام ساقی
کریں اتمام دورِ جام ساقی
بساطِ بادہ و مینا اٹھا لو
بڑھا دو شمعِ محفل بزم والو
پیو اب ایک جام الوداعی
پیو اور پی کے ساغر توڑ ڈالو
سجاد ظہیر نے ۶۸سالہ زندگی میں قلم اور قدم دونوں حوالوں سے کام ہی کام کئے۔ کہانیاں لکھیں۔ ناول لکھا۔ شاعری کی۔ صحافت کی۔ تنقید لکھی (ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ مضامینِ سجاد ظہیر ان کی موت کے بعد یو۔پی اردو اکادمی نے ۱۹۷۶میں شائع کیا۔) تحریک کی تاریخ لکھی لیکن ان سب میں سب سے بڑا کام تو انجمن کی بنیاد ڈالنا اور پھر اسے نہایت سرعت سے تحریک میں بدل دیناتھا۔ یہ کوئی معمولی کام نہ تھا اس کے پیچھے فکر و نظر اور محنت و عمل کی ایسی تصویر تھی جس میں اس عہد کا پورا سماج اور تاریخ دیکھی جا سکتی ہے۔ اردو کے ممتاز شاعر فارغ بخاری نے ایک جگہ لکھا ہے :
’’وہ اپنی ذات میں انجمن تھے، ایک تحریک تھے، ایک مکتبۂ فکر تھے انھوں نے ادب کو ایک نیا موڑ دیا۔ نیا ذہن دیا۔ نئی سوچ اور نئی روشنی دی اور قلمکاروں کی ایسی کھیپ پیدا کی جو نئے چراغ روشن کر رہی ہے۔ جب تک یہ چراغ سے چراغ جلتے رہیں گے ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔‘‘
جو لوگ بڑے کام کر جاتے ہیں انھیں صرف جسمانی موت آتی ہے۔ وہ مر کر بھی امر ہو جاتے ہیں۔ ان کے نام اور کام نہ صرف ہمیشہ زندہ رہتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے دل و دماغ میں دھڑکتے رہتے ہیں۔ فیض نے کہا تھا:
’’بنّے بھائی ان ہستیوں میں سے تھے جن کی موت کا ماتم نہیں زندگی کا جشن منایا جاتا ہے۔ آج وہ ہم میں نہیں رہے لیکن ان کی تخلیقات زندہ رہیں گی۔ ساری دنیا کے ترقی پسند عوام کے لئے سر چشمہ و جدان اور مشعلِ راہ بنی رہیں گی۔‘‘
وہ ایک ادیب و تخلیق کار کی حیثیت سے تو زندۂ جاوید ہیں ہی، بانی ٔ تحریک اور ترقی پسند فکر و نظر کے محرک کی حیثیت سے بھی ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔
پاکستان کی جیل سے ایک ردّی کاغذ پر کوئلہ سے سجاد ظہیرنے اپنی رفیقہ ٔ حیات کو خط لکھا تھا:
’’تم مجھے غم کے ساتھ نہ یاد کرنا کہ میں خوشی کے لئے زندہ رہا تھا۔ میرا قصور بس اتنا ہے کہ میں چاہتا تھا کہ خوشی سب کو ملے۔ تم مجھے آنسوؤں کے ساتھ نہ یاد کرنا کہ میں سب کے چہروں پر مسکراہٹ چاہتا تھا۔ یہی میرا سفر تھا اور یہی میری منزل اور یہی میری آخری کوشش۔‘‘
لینن کے یہ جملے سجاد ظہیر کی شخصیت اور کارناموں پر پورے اترتے ہیں:
’’ انسان کی عزیز چیز ہے زندگی۔ اسے اس طرح جینا چاہئے کہ مرتے وقت یہ کہہ سکے کہ میری ساری زندگی اور ساری طاقت دنیا کے سب سے بڑے مقصد انسانوں کی خوشی اور آزادی میں خرچ ہوئی۔‘‘
٭٭٭
یہ وحیٔ دہریت روس پر ہوئی نازل
کہ توڑ ڈال کلیسائیوں کے لات و منات
(علامہ اقبال)
غالباَ سب سے بڑی بات یہی ہے کہ نئے لکھنے والے جو ابھی طالب علم تھے یا باقاعدگی سے ادیبوں کی صف میں داخل نہیں ہوئے تھے ترقی پسند ادب کی تحریک اور ترقی پسند نظریہ سے متاثر ہوئے۔ وہ تمام غالباَ جن کے نام ہم پہلی بار ۱۹۴۳ء اور ۱۹۴۴ء سے ترقی پسند ادیبوں کی حیثیت سے سنتے ہیں،اسی زمانے میں ترقی پسند ی کی طرف کھنچ رہے تھے۔مثلاَ احمد ندیم قاسمی،ساحر،ظہیر کاشمیری،رہبر وغیرہ اور اس ترقی پسند قافلے کا مرکز بمبئی تھا۔
سجاد ظہیر از روشنائی