سلطان جمیل نسیم(کینیڈا)
میری سمجھ میں یہ بات آچکی ہے کہ جب ہم کسی بڑے آدمی کے بارے میں کچھ کہنے کی کوشش کرتے ہیں تو دراصل ہم اپنا قد اونچا کرنے کی لا شعوری فکر میں مبتلا ہوتے ہیں۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کسی فردکے سلسلے میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا کوئی ایک یا کئی کارنامے ایسے ہیں جنھوں نے ہمارے معاشرے کو کسی بھی عنوان سے ایک ایسے تغیر سے آشنا کیاجو زندگی اور انسانیت میں مثبت تبدیلیوں کا باعث بنا ہو․․․․پھر یہ بھی معلوم ہو کہ اُس فرد کی انقلاب آفریں تحریک کی تاریخ تو موجود ہے لیکن خود اُس شخصیت کے حالاتِ زندگی یا سوانح موجود نہیں ہے تو حیرت کے ساتھ دکھ بھی ہوتا ہے۔اِس طرح ہم اپنے ساتھ ساتھ اپنی آنے والی نسل کے لئے بھی ایک اچھی مثال چھوڑ نے سے محروم رہ جاتے ہیں۔یہ فرض ہوتا ہے اُن لوگوں کا جو متعلقہ فرد یا شعبہ سے قریب یا وابستہ رہے ہوں۔ وقت گزرنے کے ساتھ غیر متعلق یا غیر حقیقی واقعات اُس شخصیت کے ساتھ نتھی ہوتے چلے جاتے ہیں یوں وہ شخصیت ہی پسِ پردہ نہیں چلی جاتی بلکہ تاریخی اعتبار سے اصل واقعات پربھیِ پردہ پڑا رہ جاتا ہے۔ ہمارے مزاج کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ جس کو ہم چاہتے ہیں اُسے ایک اونچے استھان پر بٹھا کے بت بنا دیتے ہیں یا جس سے نظریں چرا تے ہیں اُس کوبالکل اندھیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں جس کی ایک مثال ہماری وہ ادبی شخصیات ہیں جن کے ایک ایک دو دو شعر یا مصرعے تو ملتے ہیں مگر شخصیت کا پورا حوالہ لاعلمی کے اندھیرے میں گم ہو چکا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ ابھی ہم ترقی پسند تحریک کے بانی سید سجاد ظہیر کے بارے میں لا علمی کے اندھیرے سے بہت دور ہیں اوریقینا سجاد ظہیر پر ہندوستان کی کسی نہ کسی یونیورسٹی میں سوانحی کام ہوا ہوگا لیکن وہ ادب سے متعلق لوگوں تک اس طرح نہیں پہنچا جیسے علی سردار جعفری یا اسی قبیل کی شخصیات کے بارے میں بنیادی معلومات ادب کی دنیا میں موجود ہیں۔ اس کا ایک سبب تو یہ بھی ہے کہ ان افراد نے کوشش کی کہ جو کچھ ان کے بارے میں ہندوستان میں لکھا گیا ہے وہ پاکستان کے ادبی حلقوں تک بھی پہنچے لیکن سیدسجاد ظہیراپنے مقصد کے حصول کی لگن میں ایسے منہمک تھے کہ انھوں نے اِ س طور سے اپنے بارے میں کبھی غور ہی نہیں کیا۔ ایک تو وہ کم آمیز تھے دوسرے بقول میرے والد’’سجادظہیر اپنی ذات یا اپنے کارناموں کو بیان کرنے کے سلسلے میں بہت خسیس ہیں‘‘جب کہ اُن کے دیگرساتھی کسی نہ کسی عنوان سے ادبی دنیا میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے ہیں۔ترقی پسند تحریک کے ایک ستون علی سردار جعفری بھی تھے ، وہ پارٹی کے کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے تخلیقی کاموں کی طرف سے بھی غافل نہیں رہے ۔پاکستان میں بھی اُن کے بارے میں متعدد چیزیں لکھی گئیں بلکہ ماہنامہ ’’افکار‘‘ نے تو ان کے بارے میں ایک ضخیم نمبر بھی شائع کیا، یوں جعفری صاحب کی سوانح ترتیب دینا کوئی مشکل نہیں ہے۔ جب کہ بنّے بھائی نے اپنی ذات کو خالص کمیونسٹ پارٹی کے استحکام اور فروغ کے لئے وقف کردیا تھا۔ اس کے باوجود ان کی شخصیت ادبی طور سے بہت زیادہ نہ سہی لیکن زرخیز ضرور تھی۔ سید سجاد ظہیر کی شخصیت کے سب نہ سہی ایسے تمام پہلوؤں کو ضرور سامنے لانا چاہئے تھاجن سے عزم و اعتماد،ایثار وقربانی کی عملی صورتیں ہمارے کارکنوں اور انقلاب پسند نو جوانوں کی رہنمائی کے لئے سامنے آتیں۔ یہ کام اُن کے قریبی اورمعتمد ساتھیوں کے کرنے کا تھا۔اس بارے میں تو یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ اُن کے ساتھ کام کرنے والے حضرات اپنے مقصد کے حصول کی لگن میں ایسے جتے تھے کہ اِس اہم کام کی طرف توجہ ہی نہ کرسکے ۔ تاہم جن حضرات نے سید سجاد ظہیر کے ساتھ کام کیا تھا یہ اُن ہی لوگوں کا کام تھا کہ ایک مختصر اور مستند سوانح عمری لکھتے۔ یقینا سجاد ظہیر اِس طرح کی تحریر کے لئے راضی نہیں ہوتے کہ وہ تحریک کے کام میں اور اُس کے مقصد کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے میں منہمک تھے اور اِس کام کو(اپنی سوانح ترتیب دینے کے کام کو)ممکن ہے وہ پسند بھی نہ کرتے لیکن اُن کے ساتھیوں کا فرض تھا کہ بہرحال وہ یہ کام کرتے ۔ گیارہ برس میں تحریک جوان ہو چکی تھی ۔اہلِ قلم اِس کے مثبت و منفی مضمرات پر جی بھر کے باتیں کہہ اور لکھ چکے تھے ۔ اِس تحریک نے قیامِ پاکستان کی حمایت کی تھی۔ خود سید سجاد ظہیر پاکستان آگئے تھے کہ یہاں کمیونسٹ پارٹی کی بنیادیں مستحکم کرسکیں۔ لیکن پاکستان میں ترقی پسند تحریک اورکمیونزم یا سوشلزم کا نام لینے والی جماعتوں پر پابندی لگادی گئی تھی۔ ایسے تمام لوگ جن کو حکومتِ وقت ’’سرخا‘‘ سمجھتی تھی وہ جیل میں تھے یا زیرِ زمین چلے گئے تھے۔سجاد ظہیر کو حکومتِ پاکستان نے ۱۹۵۵کے شروع میں جلا وطن کر دیا تھا اور وہ ہندوستان جاکر وہاں کمیونسٹ پارٹی کے لئے کام کر نے لگے تھے۔اس وقت کسی قریبی ساتھی کو اُن کی سوانح عمری لکھنا چاہئے تھی۔ جو لوگ ایسی شخصیتوں سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں وقتِ گزراں کے ساتھ جب وہ بھی گزر جاتے ہیں تو پھر مجھ جیسے ادب کے طالبِ علموں کے لئے اس حوالے سے ایک خلاء رہ جاتا ہے۔آج بھی ترقی پسند ادب اور ترقی پسند تحریک کو ہمارے ادب کی ایک ناقابلِ فراموش کڑی سمجھنے والے موجود ہیں اور اس حوالے سے طویل تقریریں تو کرتے ہیں اور ترقی پسند ادب کی تاویل اور تشریح میں ورق کے ورق سیاہ کر دیتے ہیں لیکن سید سجاد ظہیر کی ایک مستند سوانح عمری مرتب کرنے کی جانب متوجہ نہیں ہوتے۔یہ بات صرف سید سجاد ظہیر کے لئے ہی نہیں بلکہ اُن تمام لوگوں کے لئے لکھ رہا ہوں جنہوں نے ترقی پسند تحریک کے لئے تن من دھن سے کام کیا اور اِس تحریک کی خاطر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی پسِ پشت ڈال دیا،اُن سب کے بارے میں خصوصاَ پاکستان کی نئی نسل بالکل بے خبر ہے۔ایسے تمام لوگوں کی جنھوں نے ادب کے حوالے سے کام کیا اور پاکستانی ادب کی تاریخ میں گم نام رہے انکی سوانح کم از کم ایک ایسے کتابچے کی صورت میں شائع کئے جا نے کی ضرورت ہے جیسے آج سے نصف صدی پہلے علیگڑھ سے مختلف شعراء کا انتخابِ کلام۔’’جدید شاعری کے معمار‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ یا آج بھی بہت سے شعراء کے سو(۱۰۰) اشعار شائع ہوتے ہیں۔
پروفیسر عتیق احمدنے کہ اللہ ان کا بھلا کرے سجاد ظہیر کی زندگی اور تحریروں کے حوالے سے دو مختصر کتابیں’’بنے بھائی‘‘ اور’’سجاد ظہیر۔تخلیقی اور تنقیدی جہات‘‘ مرتب کر دی ہیں،یا پھر چند سطریں ’’روشنائی‘‘کے دیباچے میں ملتی ہیں جو سبط حسن نے لکھا ہے۔خلیق احمد خلیق کی سوانح’’منزلیں گرد کے مانند․․‘‘میں بھی سجادظہیر کاایک مختصر سوانحی نوٹ ہے۔لیکن کہیں سے بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے کتنے بچے تھے۔؟۱۹۳۷میں شادی ہوئی اور ۱۹۷۳میں انتقال ․․․․سوانح کے سلسلے میں اولاد مستند حوالہ ہوتی ہے۔
اُن کے والد نے اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان بھیجا تھا،وہاں سے قانون کی ڈگری لانے کے بعد جب وکالت کرنے کے بجائے ٹریڈیونین کے کام میں لگ گئے تو والدین،اور دوسرے بھائیوں کا کیا ردِعمل ہوا۔اتنی پارٹی کی مصروفیات ہوتے ہوئے ادبی کاموں کی جانب دھیان دینے کا خیال کسی کی ترغیب و تحریک سے آیا یا خود اپنی فطرت میں گھلے ملے ادبی ذوق نے اپنی طرف کھنچا۔؟یہ ساری باتیں ایک تفصیلی مقالے یا کتاب میں ہی سمیٹی جا سکتی ہیں۔
پروفیسر عتیق احمد کراچی میں ایک روشن خیال نقاد ہیں۔(اللہ انکو صحت عطا فرمائے کہ آجکل شدید علیل ہیں) پروفیسر عتیق احمد جناح کالج میں انگریزی کے استاد کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ۔ لا ولد ہیں۔ ان کی بیگم فہمیدہ عتیق بھی تعلیم کے شعبہ سے وابستہ تھیں،انھوں نے انتقال سے دو ایک برس پہلے جامعہ کراچی سے جمیل الدین عالی پر پی ایچ ڈی کیا تھا ۔عتیق احمد کراچی اور پاکستان کے اُن اہل قلم سے قربتِ خاص رکھتے ہیں جو معروف معنی میں خود کو ترقی پسند یا روشن خیال کہتے ہیں۔ اب تک پروفیسر عتیق احمد کی جو کتابیں شائع ہو چکی ہیں، ان میں۱۔ استفادہ (تنقیدی مضامین )۲۔ مضامین پریم چند(ترتیب معہ مقدمہ ) ۳۔مثلث (عزیز احمد کا ناولٹ ترتیب و مقدمہ ) ۴۔اردو ادب میں احتجاج (جلد اول ) ۵۔فیض اور اُن کا عہد ۔۶۔بنّے بھائی (مرتبہ) ۷۔سجاد ظہیر۔تخلیقی اور تنقیدی جہات، شامل ہیں۔اوراتنی ہی اشاعت کے انتظار میں ہیں۔ سید سجاد ظہیر کی شخصیت پرمختلف لوگوں کے مضامین ’’بنّے بھائی‘‘نامی کتاب میں یکجا کئے گئے ہیں میں نے اُن ہی مضامین سے تھوڑی تھوڑی وہ باتیں لے کرایک خاکہ بنانے کی کوشش کی ہے،جس سے سید سجاد ظہیرکی زندگی، شخصیت، نظریات ، ادبی رویوں اور تخلیقات کی ایک واضح جھلک سی نظر آسکے۔آخیر میں میں نے سجاد ظہیر کے دو خط شامل کئے ہیں جو میرے نام آئے۔
عصمت چغتائی کے مضمون میں درجِ ذیل جملے سجادظہیر کی زندگی کے نجی گوشوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔
٭عشق سب سے چٹ پٹا موضوع تھاتو سنا کہ گھر والوں نے اپنی پسند سے لڑکی ڈھونڈی اور یہ دولہا بن گئے․․․
٭سنا تھا شراب بھی پی کر اودھم نہیں مچاتے۔یا خدایا یہ کیسے انقلابی ہوئے کہ ان کی شادی میں مانجھا اُبٹن تک ہوا۔ پورے پکے دولہا بنے یہ سب غیر انقلابی حرکتیں ہیں․․․․․․٭میری دوسری ملاقات بنّے بھائی سے ان کے گھر سیکری بھوّن کے کمرے میں بمبئی میں ہوئی اس وقت وہ کیفی اعظمی کااور موتی بیگم کا نکاح پڑھوا رہے تھے۔قاضی موگھے نکاح پڑھا رہے تھے،بنّے بھائی گواہ تھے۔جب قاضی جی نے کیفی کی مذہبیت کے بارے میں پوچھا تو بنّے بھائی نے بڑی متانت سے جواب دیا سنی المذہب۔ وہ اس لئے کہ اگر یہ کہہ دیتے کہ کیفی شیعہ ہیں تو شیعہ مولوی کو بھی بلانا پڑتا، خوامخواہ تین چار گھنٹے لگ جاتے․․․․
٭ ․․․․میری اصل ملاقات بنّے بھائی سے اُس وقت ہوئی جب میں لکھنو کانفرنس میں شرکت کے لئے گئی تو بنّے بھائی کے گھر ٹھہری۔ وہاں رہ کر میں نے پہلی بار بنّے بھائی کا بحیثیت ایک انسان کے مطالعہ کیا۔ بنّے بھائی اپنی خاندانی کوٹھی کے پچھواڑے نوکروں کے کوارٹر میں رہتے تھے۔صحن کی دیوار اُٹھی ہوئی تھی،کمرے پرانے اور بوسیدہ تھے۔بڑے کمرے میں کئی پلنگ پڑے ہوئے تھے سخت جاڑے پڑرہے تھے اور ہم سب وہاں ہی سوتے تھے۔۔۔بنے بھائی کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ رضیہ ، لکھنو کرامت اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ان کی کمائی پر گھر کا خرچ چلتا تھا۔۔۔
٭میں ایک واقعہ کبھی نہیں بھولونگی،جن دنوں میں وہاں تھی سخت جاڑے پڑ رہے تھے۔رضیہ نے بڑی بیٹی نجمہ کے لئے نیا کو ٹ بنوادیاکیونکہ اس کا کوٹ چھوٹا ہوگیا تھا۔اس لئے نسیم کو مل گیا چھوٹی بہن ہونا بھی قیامت ہے، نسیم ضد کرنے لگی کہ پراناکوٹ نہیں پہنے گی․․․․․
٭وہ خطوط جو انہوں نے رضیہ کو لکھے ان میں انہوں نے اپنا دل نکال کے رکھ دیا ہے۔شایدرضیہ نے اُن ہی خطوط کے سہارے زندگی کی تلخیوں کو اس خوبصورتی سے جھیلا۔یہ خط انہوں نے صرف اپنی پیاری بیوی کو لکھے ہیں مگر دنیا کے ضمیر سے خطاب کیا ہے۔
عصمت چغتائی کے مضمون ’’خوابوں کا شہزادہ‘‘سے متذکرہ بالا اقتباسات کے بعدکچھ سطریں سانکریتائن کے مضمون ’’نئے نیتا‘‘سے بھی سن لیجئے۔
٭جب وہ اپنے جون پور ضلع کی بولی بولتے ہیں تو پتہ نہیں چلتا کہ ایک تعلیم یافتہ شخص بول رہا ہے۔
٭سر وزیر حسن کا گھر کلاں پور (کھیت سرائے کے پاس) ضلع جونپور میں ہے۔بنّے کی ماں سکینہ الفاطمہ بڑی ہی مہذب اور سنجیدہ خاتون ہیں۔صوبہ متحدہ میں اونچے گھرانے کی شاید وہ پہلی خاتون ہیں جنھوں نے پردے کی رسم کو توڑا۔گاؤں والے انھیں سکّن بی بی کہتے ہیں ․․․سکن بی بی کے پانچ بیٹوں میں بنّے چوتھے اور زیادہ لاڈ لے ہیں۔
٭گورنمنٹ جوبلی اسکول اس وقت لکھنو کا سب سے اچھا اسکول تھا۔ نو سال کی عمر میں (۱۹۱۴)اسی مدرسہ میں پانچویں جماعت میں بنے میاں کو شریک کیا گیا۔۔ ہاکی اور فٹ بال کا بہت شوق تھا۔۔۔خود شیعہ خاندان کے فرد تھے اس پر لکھنو کی شیعی فضا ، وہاں محرّم جس موثر طریقہ سے منایا جاتا تھا وہ بنّے کو بھلا معلوم ہوتاتھا۔ خاص کر انیس کے مرثیوں میں کربلا کے شہیدوں کے دل ہلا دینے والے واقعات سن کر وہ اپنے آنسو ؤں کو روک نہیں سکتے تھے۔
٭۱۹۲۰میں کربلائے معلی گئے۔٭۱۹۲۱میں درجہ دوم سے میٹرک پاس کیا۔٭بنّے میاں نے اللہ کے لئے زندگی میں ایک بار روزہ بھی رکھا۔
٭۱۹۲۳،۱۹۲۴میں بنّے نے کئی انگریز ی اور فرانسیسی ادیبوں کی کتابیں پڑھیں۔ایف اے پاس کرکے۱۹۲۴ء میں وہ لکھنو یونیورسٹی میں بی۔اے میں شریک ہو گئے۔اسی وقت کانپور میں کمیونسٹوں پر سازش کا مقدمہ چلا،روس ، ماسکو،لینن کانام زیادہ سنائی دینے لگا۔روسی انقلاب کے بارے میں تجسّس بڑھا اور لائبریری میں اِس موضوع پر جتنی کتابیں مل سکیں ،پڑھ ڈالیں۔اکثر بیمار رہتے،لیکن اسکے باوجود ۱۹۲۹ء میں امتحان میں بیٹھ گئے اور درجہ سوم سے پاس کیا۔اب انھیں اعلیٰ تعلیم کے لئے آکسفورڈ جانا تھا مگر صحت کی خرابی کے باعث ایک سال رک جانا پڑا۔اس دوران میں وہ فارسی پڑھتے رہے۔
٭مارچ ۱۹۲۷ء میں ولایت کے لئے روانہ ہوئے۔٭آکسفورڈ میں زیادہ عرصہ نہ رہ پائے تھے کہ تپ دق نے حملہ کیا۔ لا چسوٹزرلینڈ کے ایک سینی ٹوریم کو بھاگنا پڑا۔٭صحت ٹھیک ہوجانے کے بعد ۱۹۲۸ء میں بنّے جب آکسفورڈلوٹے تو وہ پکے کمیونسٹ ہو چکے تھے۔ لندن میں اِن کے کئی ہم خیال مثلاَ ڈاکٹر اشرف،ڈاکٹر زین العابدین وغیرہ موجود تھے۔لندن کی کانگرسی جماعت میں شامل ہو گئے۔،آکسفورڈ میں مجلس طلبائے ہند کے نام سے ایک جماعت ہے بنّے اسکے نمائندہ بن کر مخالف فسطائی کانفرنس میں شریک ہونے کیلئے یورپ (فرینکفر ٹ ) گئے،کانفرنس میں سوویت کارکنوں سے ملنے کا موقع ملا۔٭۱۹۳۲ء میں آکسفورڈ سے بی اے کیا، اور ڈنمارک،جرمنی،آسٹریا اور اٹلی کی سیر کی،پھر بنّے ہندوستان لوٹ آئے۔
٭سوئٹزر لینڈ ہی کے دورانِ قیام میں انہوں نے ’’انگارے‘‘لکھا تھااور اب اسے شائع کرایا۔مگر وہ جلد ہی ضبط ہوگیا۔یہ بنّے کی پہلی تصنیف نہ تھی۔انگارے سے پہلے ۱۹۲۵ء و۱۹۲۶ء میں ان کی کئی کہانیاں ’’زمانہ‘‘ میں بھی چھپی تھیں۔(یہاں کتاب کے مرتب ،پروفیسر عتیق احمد نے حاشیہ میں لکھا ہے ۔’انگارے‘ سجاد ظہیر نے ترتیب دیاتھا)
٭ہندوستان میں چھ مہینے رہنے کے بعد بنّے بیرسٹر بننے کے لئے پھر ولایت چلے گئے۔اب وہ لندن میں رہتے تھے اور زیادہ وقت سیاسی کاموں میں صرف ہوتا تھا۔٭وہ پہلے ہندوستانی طلباء کے (مجلے) ’ہندوستان ‘ کے ایڈیٹر رہ چکے تھے اب انہوں نے ’’نیا ہندوستان‘‘(سہ ماہی) نکالا۔٭۱۹۳۵ء میں بنّے نے بیرسٹری پاس کی۔٭دسمبر ۱۹۳۵ء میں بنّے ہندوستان لوٹے۔آخر ماں باپ نے روپیہ خرچ کر کے آٹھ سال تک ولایت میں پڑھایا تھا، انھیں بھی تو معلوم ہونا چاہیے کہ بنّے کچھ ہوکر آئے ہیں اور کچھ کر سکتے ہیں۔اسی لئے تو سجاد نے ایک سال بعد الہٰ آباد میں بیرسٹر ی شروع کی۔لیکن بیرسٹری نرے قانونی امتحان پاس کر لینے سے تھوڑے ہی ہوتی ہے اس کے لئے تو خاص دل و دماغ کی ضرورت ہوتی ہے ۔
٭۱۹۳۷ء میں بنّے دولہا بنے،برات اجمیر گئی۔بیوی (رضیہ)تعلیم یافتہ اور اردو کی اچھی ادیبہ ہیں۔بیاہ کے بعدبہت اچھے نمبروں سے انہوں نے الہ آباد سے ایم اے پاس کیا، اِس میں شک نہیں کہ یہ جوڑا بہت اچھا رہا۔مگر پہلے کچھ محبت کی رسہ کشی جاری رہی۔ایک امیر سید زادی پھر سر وزیر حسن کی بہوپھر جیٹھوں میں کوئی آئی سی ایس اور کوئی یونیورسٹی کے پرو فیسر،قریبی رشتہ داروں میں ہائیکورٹ کے جج اور بڑے بڑے عہدیدار․․رضیہ بیاہ کے وقت خوش تھیں کہ ان کے میاں اتنے بڑے خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔
٭۱۲؍مارچ ۴۰ءآگیا۔بنّے میاں کو پکڑکرلکھنو جیل میں نظر بند کر دیا گیا۔پورے دو سال جیل میں رہنے کے بعد ۱۴؍مارچ ۴۲ء کو رہا کئے گئے۔
٭پہلے رضیہ ،ترقی پسندی کا دم بھرتے ہوئے بھی کٹّر مذہبی خیالات کی تھیں،اس کی انہیں بڑی فکر تھی کہ میاں روزی نہیں کماتے۔۔اب میاں کو پاگل نہیں سمجھتیں ․․․آخر میاں کماؤ بھی تو ہیں۔بمبئی جیسے عالی شان شہر میں رہتے ہیں ۔ ایک اخبار ’’قومی جنگ‘‘ (اب ’نیا زمانہ‘ کے نام سے نکل رہا ہے)کی ادارت کرتے ہیں اور پچیس روپیہ کی بھاری تنخواہ پر،رضیہ جب بمبئی میں رہتی ہیں توبنّے جو کھانا کھلاتے ہیں وہ اِنہیں سر وزیر حسن کے دسترخوان سے کم میٹھا نہیں لگتا ہوگا۔٭بنّے جنتا کے آدمی ہیں۔اس لئے جنتا کی زبان اور اسکے گیتوں سے انہیں بڑی محبت ہے۔انہوں نے جونپوری بولی میں لینن پر ایک آلھا(گیت) لکھا ہے۔
راہل سانکریتائن کے مضمون ’’نئے نیتا‘‘ کے اقتبا سات کے بعد ایک اقتباس مجنوں گو رکھپوری کے مضمون ’’بہ مرگ من یاد آر‘‘ سے:
٭سجاد ظہیر بڑے شریف النفس اور سچے انسان تھے۔ترقی پسند گروہ میں اِن سے زیادہ مہذب، شائستہ اور سلیم الطبع شخص مجھے آج تک نہیں ملا۔
سید سبط حسن لکھتے ہیں٭انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانی سجاد ظہیر کی اچانک موت نے ایک ایسی پیاری شخصیت کو ہمارے درمیان اور اردو ادب کے میدان سے اٹھا لیا ہے جس کی خدمات جدید اردو ادب کی نشو و نما میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ اُنکا انتقال ایسے وقت میں ہوا کہ جب وہ افریقی اور ایشیائی ادیبوں کی کانفرنس(منعقدہ الماتا) میں شرکت کر رہے تھے۔واقعہ یہ ہے کہ افریقہ اور ایشیا کے ادیبوں کا اتحاد اور انکی یکجہتی سجاد ظہیر کو ہمیشہ سے بے حد عزیز تھی۔
٭سجاد ظہیر کوئی پُر نویس قسم کے ادیب نہیں تھے۔اپنے ۳۵سالہ ادبی کیرئر میں انہوں نے صرف ایک ناول چند کہانیاں اور ڈرامے اور جدلی مادیت پر ایک کتابچہ،حافظ شیرازی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ،ترقی پسند تحریک کی تاریخ، نظموں کا ایک مجموعہ ’’پگھلا نیلم‘‘ اور دو درجن سے زائد مضامین لکھے لیکن جو کچھ بھی لکھا جدید اردو ادب پر اس کے بڑے گہرے اثرات پڑے۔
٭وہ مشرقی اور مغربی موسیقی کے بڑے دل دادہ تھے۔فارسی اردواور ہندی شاعری کو بیحد پسند کرتے تھے۔
اپندر ناتھ اشک نے لکھا٭بنّے بھائی نہ صرف اچھی کہانیاں لکھا کرتے تھے بلکہ انہوں نے اردو میں سب سے پہلا ایک ایکٹ کا ڈرامہ لکھا تھا’’بیمار‘‘۔ میں نے اسے پڑھا تھا۔مجھے وہ بہت پسند آیا۔اسے پڑھ کر مجھے بھی ایک ایکٹ کا ڈرامہ لکھنے کی تحریک ملی تھی اور میں نے مسلسل ایک ایکٹ کے ڈرامے لکھے․․․․میں نے ایک ایکٹ کا ڈرامہ لکھا۔ خواجہ احمد عباس نے’’طوفان سے پہلے‘‘ اس کا عنوان رکھا۔بنّے بھائی نے اس کا دیباچہ لکھا۔
اب ایک دو اقتباسات مفتی محمد رضا فرنگی محلی کے مضمون سے جو ’’سید سجاد ظہیر۔خطوط کے آئینے میں ‘‘کے عنوان سے کتاب میں شامل ہے۔ایک جگہ صاحبِ مضمون لکھتے ہیں۔٭بنے بھائی میں ہم خیال بنانے کا بڑا ہنر تھا،وہ تبادلۂ خیال میں نہ برہم ہوتے تھے نہ طنزیہ چوٹ کرتے بلکہ دوسرے کے نقطۂ نظر کے احترام کے ساتھ گفتگو کیا کرتے تھے،کوئی شوخ جملہ اگر وہ کہنا بھی چاہتے تو پہلے سے اس کی معذرت کر لیتے اور ہنس ہنس کر ہی بات جاری رکھتے تھے۔
٭بنّے بھائی لکھنوآئے(۱۹۴۳ء میں)۔ان سے ملاقات کے لئے ایک نشست پنڈت آنند نرائن ملّا کے مکان واقع جگت نرائن روڈ گولہ گنج میں،میں نے بلائی۔اس میں بنّے بھائی آئے تو جناح کیپ پہنے ہوئے تھے۔میں نے چھیڑا کہ کیا آپ بھی مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔یہ جناح کیپ کب سے شروع کردی۔ بگڑے کہ آپ لوگ تعصب نہیں چھوڑیں گے تو محنت کشوں کے مطالبات کبھی پورے نہ ہوسکیں گے۔۔یہ بھی کہا’’ابھی پی․سی․جوشی کی ایک پریس کانفرنس بمبئی میں ہوئی تھی،اس میں گاندھی جی،مسٹر جناح اور پنڈت نہرو کی تصویریں لگی تھیں تو خواجہ احمد عباس نے(بمبئی کرانیکل کے اُس وقت کے اسٹاف رپورٹر)مسٹر جناح کی تصویر پر اعتراض کیا،پھر یہ اعتراض کہ مولانا آزاد کی تصویر کیوں نہیں لگی ہے۔۔آپ لوگ حقائق کو سمجھنے کی کوشش کیجئے اور تعصب کو نکالئے․․وغیرہ وغیرہ ۔جناح کیپ کے بارے میں انہوں نے انکشاف کیا کہ یہ ٹوپی انہوں نے ڈنمارک میں نوے شلنگ کی خریدی تھی جب وہ انگلستان میں پڑھتے تھے۔
٭’’یہاں(بمبئی) قیام کے دوران میں ایک نئے نظر یے سے سابقہ پڑا۔مسلم لیگ باوجودیکہ فرقہ وارانہ جماعت ہے مگر چونکہ عام مسلمان اس کے ساتھ ہیں اور ترقی پسندوں کو عوام میں کام کرنا ہے۔ اُن کے لئے اب کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ کانگریس اور مسلم لیگ میں شامل ہوکران کے ذریعے ہندومسلم عوام تک اپنا نقطۂ نظر پہنچائیں اِس لئے پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے ہندو حضرات کانگریس میں اور مسلم حضرات مسلم لیگ میں شامل ہوں۔۔۔
٭مضمون نگار نے (مفتی محمد رضا)لکھنو سے ۱۹۴۳ء سے ایک رسالہ’ منزل‘نکالا تھا ، اسی زمانے میں ندوۃ العلماء کے طلباء کی ہڑتال کے حق میں ایک نوٹ شائع کیاجس میں علامہ سید سلمان ندویؒ پر بھی کچھ چھینٹیں تھیں،یہ سب باتیں سجاد ظہیر صاحب کو لکھیں۔اُن کا جواب آیا․․․․․․․․’’میری رائے یہ ہے کہ تمہارااِس حد تک جھگڑے میں پڑجانا موجودہ حالات میں جبکہ اور بہت سے ضروری کام کر نے ہیں غلط تھا․․․․․․ہندوستان کے نظامِ تعلیم میں اَن گنت خرابیاں ہیں لیکن ہم سب مل کر اگراِس وقت’ ’انجمن اصلاحِ تعلیم‘‘ کی بنیاد رکھ دیں تو کس قدر بے موقع اور فضول بات ہوگی،ہندوستان میں فاقہ کشی بڑھ رہی ہے دشمن کی فوجیں ہماری سرحد پر کھڑی ہیں ملک میں پس ہمتی کا دَور دَورہ ہے اور ہم بھئی معاف کرنا بے چارے سید سلمان ندوی کی داڑھی میں دیا سلائی لگا رہے ہیں!بھئی میں نے ایک ہفتہ تک اِس معاملہ پر غور کیا اور آخر اِس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ بزرگوں کو بیچ میں ڈال کراس معاملے کو رفع دفع کر ڈالوسید سلمان ندوی سے معافی مانگ لینا بری چیز نہیں، وہ عالم ہیں اور بزرگ ہیں ہمارے ان کے خیالات میں بہت اختلاف سہی پھر بھی ان کی بزرگ داشت کرنا ہمارا فرض ہے۔‘‘
٭بنّے بھائی علمی اور تحقیقی مزاج بھی رکھتے تھے ،ان کا مطالعہ وسیع اور گوناگوں تھا وہ ان تحریروں کو استفادے کے لئے پڑھتے تھے جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ ان کو ان سے دلچسپی ہوسکتی ہے مثلاَ مولانا آزاد کے ’’ترجمان القرآن‘‘ کا انھوں نے گہرا مطالعہ کیا تھا، مجھے ان کا یہ جملہ نہیں بھولتاکہ باوجود مذہب سے دلچسپی نہ ہونے کے انہوں نے ترجمان کی دونوں جلدیں پڑھنے کے بعد مجھ سے کہا’’بھئی مولانا آزاد کی تحریر کا کوئی جواب نہیں،ایسے دل نشیں انداز میں اپنامطلب ادا کر جاتے ہیں کہ چون وچرا کی گنجائش نہیں رہتی، میں نے ان کی تفسیریہ سوچ کر اور پینسل لیکر بیٹھا تھا کہ جہاں جہاں مجھے اختلاف ہوگا۔ نشان لگاتا جاؤں گا، مگر ایک نقطہ بھی پکڑ میں نہیں آیا کہ نشان لگا سکوں۔
٭ظ۔انصاری صاحبِ طرز خطیب وادیب تھے۔وہ اپنے مضمون ’’بنّے بھائی کی شخصیت‘‘ میں لکھتے ہیں۔ بنّے بھائی لکھنو کے ایک خوشحال اور ذی اثر شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔پلے بڑھے۔رائٹ آنریبل سر وزیر حسن کے سات بیٹوں اور بیٹیوں میں وہ چھٹے تھے۔کھرچن سب گھر والوں کو عزیز ہوتی ہے ۔یہ بھی اپنی ماں کے سب سے لاڈلے رہے۔
٭․․راولپنڈی سازش کیس میں انہیں گرفتار کیا گیا تو وکیلِ سرکار نے پھانسی کی سزا تجویز کی تھی۔بچپن کے دوست افتی میاں (افتخار الدین) اور چند احباب کے علاوہ باہر کی دنیا کو قطعی خبر نہ تھی کہ لاہور کی سفاک جیل میں اِن پر کیا گزررہی ہے،جب سیاسی حالات نے پلٹا کھایا تو وہ چھوٹ کر ہندوستان آگئے ۔جواہر لال سے ملنے گئے، کوئی گھنٹہ بھر تنہائی میں باتیں ہوتی رہیں۔مہینہ بھر نہ گزرا تھا کہ اِنہیں بھارت سیوک سماج کی آل انڈیا کونسل میں دھانس دیا۔ ۔۔۔کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سابق جنرل سیکریٹری ،ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے ممبر، راولپنڈی فوجی سازش کیس کے ملزم اور کمیونسٹ خانقاہ میں راضی بہ رضا بسر کرنے والے بنّے بھائی بھارت سیوک سماج کی آل انڈیا کونسل میں اسی اطمینان اورنیک نیتی کے ساتھ آنے جانے لگے جیسے دس برس پہلے وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسوں میں کالی قراقلی ٹوپی زیب سر کئے ہوئے نظر آتے تھے۔
٭چار برس سے اوپر وہ پاکستان کی جیلوں میں پا بہ زنجیر گھمائے گئے(اس سے پہلے برطانوی ہندوستان کی جیلوں میں وہ قفس میں رہنے کے آداب سیکھ چکے تھے) اور الزام اتنا سنگین تھا کہ جو کچھ بھی گزرجاتی کم نہ تھی لیکن
گلوئے عشق کو دار ورسن پہنچ نہ سکے تو لوٹ آئے ترے سربلند کیا کرتے
معلوم ہوتا ہے کہ انہیں نوجوانی میں ’’لندن کی ایک رات‘‘ اور اسکے بعد ’’انگارے ‘‘ کے افسانے لکھتے وقت بے فکری کی جوزندگی میسر تھی وہ پندرہ برس کی بھاگ دوڑ کے بعد پھر جیل میں نصیب ہوئی۔ جواہر لال کی تاریخی تصانیف جیل کے دنوں کی یادگار ہیں،بنّے بھائی نے بھی جی لگا کر قلم سنبھالا۔بیوی کو دل نواز خط لکھے جو اکیلا دم لکھنو میں زندگی کے پاپڑ بیل رہی تھیں اور بچے پال رہی تھیں۔’’ ذکرحافظ‘‘ میں اپنی خلوت گاہِ شوق سے پردہ اُٹھایا ۔ ’’روشنائی‘‘ میں اپنی یادداشتیں جمع کیں جو بہت سے نئے پرانے چہروں کا البم ہے۔
’’․․․ظ۔انصاری غزل کے خلاف تمہارا مضمون رضیہ نے مجھے بھیجا تو تم جانو جیل میں ہر چیز غور سے پڑھی جاتی ہے ۔ مجھے غصہ آگیا یہ کیا کفر پھیلایا کرتے ہو؟غزل کی بہتات سے خیر ہم کو بھی ابکائی آتی ہے،لیکن حافظ کے متعلق ایسی سر سری رائے؟لا حول ولاقوۃ․․․‘‘
’’ذکر حافظ‘‘ پاکستان کی مچھ (بلوچستان) جیل میں ایسے وقت میں لکھی گئی جب فیض کی وہ نظم شائع ہوئی تھی․․․ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔ایسے میں انھوں نے بادۂ شیراز کی داد دی۔
در اندیشہء محو تلاطم ہنوز قدح ساز ساقی تراشم ہنوز (غالب)
٭کوئی نہیں جانتا کہ سجاد ظہیر کے وجود کی تکمیل میں اُن کی جاں نثار بیوی کا کتنا حصہ ہے جنھیں بہ حیثیت اہلِ قلم بھی توجہ کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ ان میں اگر اتنی سہار نہ ہوتی تو بنّے بھائی کے لئے ایک ہاتھ پر جامِ شریعت اور دوسرے ہاتھ پر سندان عشق لے کر عمر کے ساٹھ سال تیر جانا بھاری پڑتا ۔۔۔
٭ڈاکٹر آغا سہیل لکھتے ہیں۔
’’بنّے بھائی سے ملنے جاؤ اگر وہ موجود نہیں ہیں تو رضیہ آپا نہایت شفقت ومحبت سے پیش آتیں بلا کر بٹھا تیں ، چائے سے تواضع کرتیں، کوئی تازہ افسانہ لکھا ہوتا تو سناتیں اور ہماری الٹی سیدھی رائے کو توجہ سے سن کر لکھ لیا کرتیں بنّے بھائی آجاتے تو نہایت تپاک سے ملتے’’آخاہ مولانا آغا، کہو کیا حال ہے، کیا لکھ رہے ہوکیاکیا پڑھ ڈالا۔‘‘
’’․․․․دراصل بنّے بھائی کے گھرانے میں خودنوازی کی ریت نہ صرف پرانی تھی بلکہ اس کی جڑیں دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں،’’نقوشِ زنداں ‘‘ کا میری موجودگی میں چرچا بہت تھا۔رضیہ آپا نے چند خطوط سنائے بھی تھے لیکن مجھے تو بنّے بھائی کی ’’ذکرِ حافظ ‘‘ سے دلچسپی تھی جسے بنّے بھائی انجمن کے جلسوں ،یونیورسٹی کی ادبی مجلسوں میں بالاقساط سنا سنا کر آراء جمع کرتے پھرتے تھے تاکہ کتاب بنتے بنتے اس پر تنقید بھی ہو جائے لیکن میں نے ’’ذکرِ حافظ‘‘ پر تحسینی کلمات کے سوا اور کچھ نہ سنا۔ اسی زمانے میں غالباَ کسی نے شرارتاَ بنّے بھائی کے کان میں یہ بات پھونک دی کہ آغا سہیل سے ذکرِ حافظ کے مسّودے صاف کرالو․․․․․․․․مسّودے کی بات بتاتا چلوں کہ کسی وجہ سے بات ٹل گئی اور میری جان بچ گئی لیکن جس قدر مسودہ میں نے پڑھا مجھے اندازہ ہوا کہ بنّے بھائی عربی و فارسی ادب پر اچھی نظر رکھتے ہیں۔۔۔․․․․․․ایک روز ذکر حافظ کا مسودہ بغل میں دبائے ہوئے اثر لکھنوی سے ملنے گئے۔ پوچھا ۔بنّے بھائی یہ کیا۔ بولے، میاں زبان کی صحت کے لئے مشورہ ضروری تھا۔
٭شاہد نقوی اپنے مضمون ’’سجاد ظہیر‘‘ میں لکھتے ہیں۔
․․․․اُس نشست میں خاص طور پر قابل ذکر اور چونکا دینے والی بات بنّے بھائی کی شاعری تھی،ہم میں سے بیشتر انھیں نثر نگار،نادل نگار، اور مترجم کی حیثیت سے تو جانتے تھے لیکن جب احتشام صاحب نے بنّے بھائی سے فرمائش کی کہ وہ غزل سنائیں تو اُن کے اِ س جملے نے ہم سب ہی کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا۔کچھ دوستوں کا اصرار تھا کہ وہ پنڈی سازش کیس کے متعلق تاثرات پیش کریں جنھیں بنّے بھائی نے بہت خوبصورتی سے ٹال دیا۔بالآخراحتشام صاحب کی فرمائش کا پاس رکھتے ہوئے انھوں نے اپنی غزل سنائی جس کا مطلع اب تک ذہن میں محفوظ ہے۔
تجھے کیا بتاؤں ہمدم ، اسے پوچھ مت دوبارا کسی اور کا نہیں تھا ، وہ قصور تھا ہمارا
․․․․․بعض لوگ انھیں ملحد سمجھتے تھے، ممکن ہے وہ ہوں۔مگر جہاں تک مجلسی و تہذیبی زندگی کے آداب تھے، معاشرتی میلانات اور اخلاقی روائتیں تھیں وہ اُ ن پر پوری طرح کاربند بھی تھے اور ان کا صدق دل سے احترام بھی کرتے تھے۔ کوئی آٹھ سال کی بات ہے لکھنو کے محلہ وزیر گنج کی مشہور آتو جی مسجد میں جب بنّے بھائی عید کی نماز پڑھنے گئے تو کئی ثقہ قسم کے بزرگوں کو زیرِ لب کہتے سنا گیا کہ بنّے بھائی کو غلط طور پر لا مذہب مشہور کیا گیا ہے۔ کچھ ایسی ہی بات ایک اور واقعہ سے ملتی ہے۔ غالباَسات یا آٹھ محرم کی تاریخ تھی۔ قیصر باغ بارہ دری میں شہر کی ایک انجمن کی ثقافتی تقریب تھی۔منتظمین میں مشہور کمیونسٹ رہنما ڈاکٹر محمد اشرف پیش پیش تھے۔بنّے بھائی ،رضیہ آپا، پروفیسر احتشام وغیرہ بھی مدعوئین میں سے تھے۔تقاریر کے بعد جب اسٹیج سیکریٹری نے ایک فنکارہ کا نام لیا کہ وہ لوک ناچ پیش کریں گی تو ایک دم سے یہ حضرات اپنی نشستوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور باہر جانے لگے۔ ڈاکٹر اشرف مرحوم فوراَ آئے اور جانے کی وجہ پوچھی۔ بنّے بھائی نے بڑی ملائمت سے کہا کہ یہاں تک تو برداشت کیا جا سکتا تھا لیکن آج آٹھ محرم ہے، ہم لوگ ناچ کسی قیمت پر نہیں دیکھ سکتے۔ڈاکٹر اشرف نے بڑی معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ یار تم کمیونسٹ بھی رہے اور شیعہ بھی اور ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔
․․․․بنّے بھائی اپنے ہمعصروں کے علاوہ نئی نسل میں جس قدر مقبول تھے ۔وہ حیثیت کم ہی لوگو ں کو میسر ہوتی ہے۔انکے بڑے بھائی سید علی ظہیر جو وزیر و سفیر بھی رہ چکے ہیں اور کانگریس کے پرانے رہنماؤں میں شمار کئے جاتے ہیں،انھیں بھی عوام میں وہ مرتبہ حاصل نہ تھاجو سجاد ظہیر کو حاصل تھا۔بنّے بھائی ہر قسم کے تعصبات سے عاری تھے۔میں پاکستان نیا نیا آیا تھا بنّے بھائی کوئٹہ سینٹرل جیل میں تھے۔اپنے ایک خط میں انہوں نے لکھا تھا۔’’میرا مشاہدہ رہا ہے کہ عام طور پر یوپی سے آنے والے حضرات یہاں سے نا خوش ہیں اور انھیں شکوہ ہے کہ پنجابیوں کا اخلاق، زبان، آدابِ معاشرت ہم جیسی کیوں نہیں۔ یہ بڑے سطحی الزامات ہیں اور اور عموماَ تاریخ سے عدم واقفیت کی بِنا پر لگائے جاتے ہیں․․․․․‘‘
٭ کیپٹن ظفر اللہ پوشنی نے جیل کی یاد داشتوں پر ایک کتاب لکھی ہے۔’’زندگی زنداں دلی کا نام ہے‘‘مرتب پروفیسر عتیق احمد نے بھی اس کتاب سے مختلف اقتبا سات شامل کئے ہیں۔یہاں ایک اقتباس دیا جا رہا ہے۔
’’۱۹۵۱ء کے آخری دنوں کی بات ہے۔ رات کے وقت ہم سب بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے کہ فیض نے ایک دلچسپ تجویز پیش کی انہوں نے کہا کہ میں تنہا ہی شعر لکھوں اور سب دوستوں کو اپنا کلام سناتا رہوں، کیوں نہ ایک محفل مشاعرہ منعقد کی جائے تاکہ میں بھی غزل لکھوں اور دیگر احباب بھی مصرعے طرح پر طبع آزمائی کریں ۔ ۔ ۔ حیدرآباد سینٹرل جیل کے دوران قیام میں ہم نے کم از کم دس گیارہ بار مشاعرے کی محفلیں برپا کیں․․․․․․دوسرا مشاعرہ، ۳؍ مئی ۱۹۵۳ء کو یعنی ہمارے مقدموں کے فیصلے اور ہمیں سزائیں مل جانے کے چار مہینے بعد منعقد ہوا۔یہ آخری مشاعرہ تھا۔ طرح کے مصرعے حسبِ ذیل تھے۔
وحشتِ دل سرِ بازار لئے پھرتی ہے اور شمشیر ہے وہی کہ جو عریاں ہے اِن دنوں
میری غزل کے خاتمے پر فیض نے سجاد ظہیر سے فرمائش کی کہ اب وہ اپنا کلام سناکر محفل کی رونق دوبالا کریں۔سجاد ظہیر ہمیشہ بڑے اہتمام سے شعر پڑھتے ہیں۔پہلے جیب سے لمبا سا کا غذ نکا لا‘ عینک کو درست طریقے سے ناک پر جمایا،تمام سامعین پر ایک رفیقانہ نظر ڈالی‘ چہرے پر ایک معصوم مسکراہٹ پیدا کی‘ پھر ہاتھ اٹھا کر انگشتِ شہادت کوہوا میں ہلاتے ہوئے بلند آواز میں فرمایا۔۔مطلع عرض کیا ہے۔۔
’’ارشاد!‘‘ سات آٹھ آوازیں بیک وقت سنائی دیں۔۔۔۔۔۔فرمایا
شعلے لپک رہے ہیں چراغاں ہے ان دنوں دل کی جراحتوں سے بہاراں ہے ان دنوں
اور پھر بولے
صدق و صفا و علم ‘ تباہ حال و سر نگو ں کذب و ریا و ظلم نمایاں ہے ان دنوں
تخلیق و فن زبون تو محنت ہے خوار خوار تنقیص و جہل صاحبِ ساماں ہے ان دنوں
’’مولانا!ذرا کم ثقیل الفاظ استعمال کیا کیجئے،، خضر حیات نے فریاد کی،،ہماری اردو کا معیار تو آپ کو معلوم ہی ہے‘‘
’’چپ رہو جی شعر سنو۔‘‘اربابؔ نے ٹوکنے والے کو ٹوکا۔
’’آل رائٹ مسٹر کرنل ۔شکر ہے ،آپ کی سمجھ میں آجاتے ہیں‘‘
’’کوئی تمہاری طرح جاہل تو نہیں ہم!‘‘
سجاد ظہیر نے غزل جاری رکھی۔اگلے چند شعر یہ تھے۔
ملبوسِ زر نگار میں قحبائے زشت رُو لیلائے حسن خاک بداماں ہے ان دنوں
انساں پہ ہے وحوش و بہائم کی سر وری افسوس ارضِ پاک بیاباں ہے ان دنوں
منبر پہ کل تلک تو سناتا تھا شیخ وعظ رندوں کے ساتھ داخلِ زنداں ہے ان دنوں
شاعر گرا تو بھانڈ اُچک کر پہنچ گیا کیسی عجیب گردش دوراں ہے ان دنوں
خنداں ہے ملک بیچ کے امریکنو ں کے ہاتھ جو مسخرا وطن کا نگہباں ہے ان دنوں
آخری شعر یہ تھا۔۔۔
انسان وہ ہے ظلم سے پیکار جو کرے شمشیر ہے وہی کہ جو عریاں ہے ان دنوں
٭میجر محمد اسحاق نے لکھا ہے۔
․․․․ایک دن ہمیں ریمانڈ کے لئے عدالت میں لے جایا جانا تھا۔ اطلاع ملی کہ سید سجاد ظہیر بھی ساتھ جائیں گے ۔ جیل کے بڑے دروازے کے اندر پولیس کی قیدی ڈھونے والی گاڑی کھڑی تھی۔ ہم وہاں رک گئے اور سید صاحب کا انتظار کرنے لگے۔اتنے میں پھانسی کی کوٹھیوں کی طرف سے سفید شلوار کرتے میں ملبوس، سر پر جناح کیپ جمائے ، ایک بھاری بھرکم ، زندگی سے مطمئن شخص آتا دکھائی دیا۔ہمارے درمیان چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ کیا یہ سجاد ظہیر ہو سکتا ہے۔ہم میں سے ان کے ساتھ کسی کی بھی جان پہچان نہیں تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ کمیونسٹ نہایت قبیح صورت ،درندہ صفت انسان ہوتے ہیں۔داہنے بائیں پستول لگاتے ہیں۔پیٹ پر پیش قبض باندھتے ہیں۔بڑی بڑی مونچھیں اور خونخوار آنکھیں رکھتے ہیں اور ان کا موضوعِ سخن قتل وغارت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔سجاد ظہیر چونکہ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے۔ اس لئے لوگوں کے خیال میں ان کے منہ سے ہر سانس میں آگ نکلنی چاہئے تھی۔اور ان کو اس قسم کا کائیاں انسان ہونا چاہئے تھاکہ ڈبکی لگائے تو جیل سے باہر چلا جائے۔ یہ شخص جو نرم چال، پاکیزہ خد وخال اور ایک عدد عالمانہ توند لئے ہوئے تھا سجاد ظہیر کیسے ہو سکتا تھا۔ ہمارے یہ ساتھی اپنی رائے پر اس شدت سے مصر تھے گویا یہ ان کا جزوایمان ہے۔چنانچہ چار وناچار ہم سب نے یہ تسلیم کر لیا کہ یہ سجاد ظہیر نہیں ہو سکتے، کشمیری بازار کے شیخ ہوں گے یا پولس کے کوئی خضر صورت ایجنٹ چنانچہ عدالت تک تمام سفر میں ہم گم سم بیٹھے ان کی طرف کن انکھیوں سے دیکھتے رہے۔ عدالت میں جب وہ کھڑے ہوکر گرجے کہ جناب والا!پندرہ دن ہوگئے اور مجھے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ میں کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہوں۔یہ بالکل لغو (preposterous)بات ہے۔تو ہمیں یقین ہو گیا کہ وہ سجاد ظہیر ہیں۔
یہاں تک میں نے اپنی دانست میں پروفیسر عتیق احمد کی مرتبہ کتاب ’’بنّے بھائی‘‘ سے مختلف حضرات کی تحریروں سے ایسے اقتباسات درج کئے جو کسی نہ کسی عنوان سے بنّے بھائی کی شخصیت کے اہم رُخ کی آئینہ نمائی کرتے ہیں۔اب اپنے پاس موجود خطوط کی بات کرنے سے پہلے یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سید سجاد ظہیر دسمبر ۱۹۷۳ء میں جب ماسکو میں افرو ایشیائی ادیبوں کی پانچویں کانفرنس منعقد ہوئی تو ہندوستانی ادیبوں کے وفد کی سر براہی کرتے ہوئے سوویت یونین کی ریاست قزاقستان کے دارالسلطنت الماتی گئے جہاں ۱۳؍ دسمبر۱۹۷۳ء کو دل کا دورہ پڑنے سے اُن کا انتقال ہوا۔رہے نام اللہ کا۔
سجاد ظہیر کی تصانیف میں۔۔۱۔انگارے(اِ س مجموعے میں اُن کے پانچ افسانے شامل تھے) ۔۲۔لندن کی ایک رات(ناولٹ)۳۔بیمار(ون ایکٹ ڈرامہ)۴۔ نقوشِ زنداں(اپنی بیگم رضیہ سجاد ظہیر کے نام خطوط)۵۔ذکرِ حافظ (حافظ شیرازی کے کلام کی تفہیم و تشریح)۶۔روشنائی( ترقی پسند تحریک کی تاریخ، یادیں )۷۔ پگھلا نیلم (نثری نظموں کا مجموعہ)۸۔ میری سنو(خلیل جبران کی کتا ب The Prophetکا ترجمہ شامل ہے ۔اس کے علاوہ انھوں نے ایک کتاب ’’اردو۔ہندی۔ ہندوستانی‘‘ کے نام سے بھی لکھی تھی۔ مختلف رسالوں میں جو اُن کے مضامین شائع ہوئے تھے، اردو اکادمی لکھنو نے اُن کو’’ مضامینِ سجاد ظہیر ‘‘ کے نام سے۱۹۷۹ء میں شائع کردیا تھا۔
میرے پاس سید سجادظہیر کے دو خط ہیں ایک اہم اور دوسرا بھی اس لئے اہم کہ اس سے مجھے اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ اہلِ ادب کی خدمت میں وہ خط پیش کرنے کے ساتھ سجاد ظہیر کی سوانح سے مختصر اقتباسات دئے جائیں، اسی لئے متذکرہ کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا ،ورنہ تحقیق میرا شعبہ ہے نہ تنقید۔۔کناڈا والے اشفاق حسین کا خدا بھلا کرے کہ انھوں نے ٹورنٹو میں سجاد ظہیر کی صد سالہ تقریب اعلیٰ پیمانے پر منائی (۲۶۔۲۷؍ اگست ۲۰۰۵ء) مگر یہاں بھی جتنے مضامین پڑھے گئے ان میں ترقی پسندتحریک کے بانی کی سوانح کے تعلق سے کوئی مضمون یامقالہ نہیں پڑھا گیا۔ سب سے اچھا مضمون ڈاکٹر محمد علی صدیقی کا تھا اور سب سے اچھی تقریر لڈمیلا واسیلوا کی ۔اسی طرح جون ۲۰۰۵ء میں ایک اردو کانفرنس ٹورنٹو میں منعقد ہوئی تھی ، اُس میں ڈاکٹر قمر رئیس ۔سید عاشور کاظمی اور علی احمد فاطمی اور شاہد ماہلی بھی تشریف لائے تھے۔یہ وہ نام ہیں جو سید سجاد ظہیر کی اور اُن کی بیگم جو معروف افسانہ نگار بھی ہیں، رضیہ سجاد ظہیر کی سوانح اس لئے بھی بہ آسانی لکھ سکتے ہیں کہ ترقی پسند تحریک سے عملی طور پر وابستہ رہے ہیں۔ اور ان کی دسترس میں وہ تمام مواخذ ہیں جو ترقی پسند تحریک کے بانی کی ایک مستند سوانح کے لئے لازمی ہو سکتے ہیں۔
میں نے سید سجاد ظہیر کو کبھی نہیں دیکھا۔سنا بہت کچھ۔پہلی بار ایک مکالمہ کی صورت میں جو میرے والد اور نانا کے مابین ہوا۔ پھر کچھ باتیں اپنے والد کی خود نوشت میں پڑھیں۔ اب جبکہ میں سجاد ظہیر کے دو خط اپنے نام آئے ہوئے پیش کر رہا ہوں تو وہ باتیں اور وہ جملے جو میرے پاس محفوظ ہیں تمہید کے طور پر استعمال کر رہا ہوں،متذکرہ کتابوں سے جو ایک خاکہ سا مرتب ہوا ہے اس کو میں اپنے پاس موجود سجاد ظہیر کے خطوط کا پیش نامہ بناکر اہلِ ادب کے سامنے حاضر کر رہا ہوں۔
میرے دادا ،ڈاکٹرخواجہ علی محمد (پ؍۱۸۷۰۔و؍۱۹۳۳)اور سر وزیر حسن کے بے تکلفانہ مراسم تھے۔سر وزیر حسن مسلم لیگ کے لئے کام کرتے تھے اورڈاکٹرخواجہ علی محمد کانگریس اور خلافت کمیٹی سے وابستہ تھے۔اور ان کی زیادہ تر ملاقاتیں لکھنؤ،الہ آ باد اور آگرہ میں ہوتی تھیں،سجاد ظہیر اپنے والدین کی آخری اولاد تھے(پیدائش۔۵؍ نومبر ۱۹۰۵ء) اور میرے والد صبا اکبر آبادی، آگرہ میں ۱۴؍ اگست ۱۹۰۸کو پیدا ہوئے۔قیامِ پاکستان سے پہلے صبا صاحب کی سید صاحب سے کتنی،کب اور کہاں ملا قاتیں ہوئیں مجھے کچھ علم نہیں ہے مجھے تو صرف یہ معلوم ہے کہ میرے والد ایک مرتبہ سید سجاد ظہیر سے ملنے کے لئے مچھ (بلوچستان) جیل گئے تھے اور تین چار بار حیدرآباد جیل۔سید صاحب کے والد سر وزیر حسن کا ذکر اس حوالے سے کہ وہ میرے دادا کے دوستوں میں سے تھے،صبا صاحب نے اپنے ایک خط (بنام سید علی حسنین زیبا ردولوی)میں بھی کیااور ایک مرتبہ جب وہ حیدرآباد جیل ملنے کے لئے جارہے تھے اور میرے نانا رعنا اکبرآبادی نے اُن کو جانے سے روکا تھا کہ کہیں خفیہ پولس والد صاحب کے پیچھے نہ لگ جائے، تب انھوں نے یہ بات کہی تھی کہ ظہیر ہمارا دوست ہے اور اس کے والد سے ہمارے والد کے بھی مراسم تھے۔یہ میرے سامنے کی بات ہے۔
میں اپنے کئی مضامین میں بھی لکھ چکا ہوں کہ ۱۹۵۷کے آخر میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے اسٹیشن ڈائریکٹر حفیظ ہوشیار پوری نے اپنے گھر ایک شعری نشست رکھی جس میں طرح کا مصرع غالبؔ کا دیا۔
میں ہوں اپنے شکست کی آواز
حیدرآباد سندھ میں موجود تمام قابلِ ذکر شاعر شریک ہوئے۔صبا صاحب بھی کراچی سے حیدرآباد ،دوپہر کی گاڑی سے پہنچے تھے، حیدرآباد بہت بڑا شہر نہیں تھا۔لوگ زور سے سانس بھی لیتے تھے تو دوسروں کو خبر ہو جاتی تھی۔حفیظ صاحب کو بھی معلوم ہوگیا کہ صبا صاحب کراچی سے آگئے ہیں وہ دعوت دینے آگئے۔دعوت منظور ہوگئی،نشست کی صدارت بھی صبا صاحب کے حصہ میں آئی۔جب وہ غزل پڑھنے بیٹھے تو کہا، حفیظ صاحب کی یاد فرمائی اور غالبؔ کا مصرع ۔ دو غزلیں ہوگئیں، ایک غزل کے چند اشعار پیش کئے دیتا ہوں۔یہ کہہ کر انھوں نے غزل پڑھی:
دیکھتا ہوں سوئے حریمِ ناز ہر نظر ہے فغانِ بے آواز
گیارہ شعر کی اِس غزل کا مقطع تھا۔
کام میں لاؤ دل کا خون صباؔ کہ مزاجِ بہار ہے ناساز
داد و تحسین کے ساتھ یہ غزل ختم ہوئی تو حفیظ صاحب کے ساتھ ڈاکٹر الیاس عشقی کے والدِ محترم مولانا رزی جے پوری، جن کا شمار اپنے عہد کے نہایت سخن فہم لوگوں میں ہوتا تھا، اصرار کیا کہ دوسری غزل بھی سنائی جائے۔ اس غزل کا مطلع تھا،
چونک اٹھا سن کے عکس کی آواز آئینہ دیکھتا تھا آئینہ ساز
اور مقطع تھا۔۔۔ تیرا رنگِ سخن الگ ہے صباؔ کہیں چھپتا ہے بات کا انداز
بلا مبالغہ اس غزل کے مطلع پر اتنی داد ملی کہ بیان سے باہر ہے۔ اور اتنی مرتبہ پڑھوایا گیاکہ مجھے یاد ہو گیا۔ جب میں یہ غزلیں صبا صاحب کی بیاض میں نقل کرنے لگا تواس مطلع کے معنی پر اٹک گیا۔اپنے حلقہء احباب میں تذکرہ کیا۔ طے پایا کہ خود صبا صاحب سے معنی ومفہوم کے لئے رجوع کیا جائے۔ صبا صاحب کو کراچی خط لکھ کر معنی پوچھے ۔یہ ایک طویل کہانی ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ میں نے علامہ نیاز فتح پوری سے لے کرڈاکٹر وزیر آغا تک اردو ادب کے تمام نامورا ہل قلم کی خدمت میں یہ شعر، شاعر کا نام بتائے بغیر،معنی و مفہوم کی وضاحت فرمانے کی در خواست کے ساتھ بھیجا۔سید سجاد ظہیر کو بھی خط لکھا ۔ جواب آیا:
16 3North Avenue
New Delhi... 2
۱۹؍ اگست ۵۸ء
بھائی نسیم صاحب، آداب عرض ہے، آپ کا خط مورخہ ۳۰؍ جولائی مجھے ملا۔لکھنو سے ری ڈائرکٹ ہوکر آیاتھا۔آج کل میں کافی وقت دہلی میں رہتا ہوں۔ خط کا شکریہ۔آپ نے جو شعر بھیجا ہے وہ چاہے کسی ترقی پسند شاعر کا ہو یاکسی دوسرے کا مجھے تو ایسا نہیں معلوم ہوتا کہ اُس پر سر کھپایا جائے۔ معمّوں سے مجھے خاص رغبت نہیں اور رمزیت اور ابہام کو میں شاعری کی صفت نہیں بلکہ خامی سمجھتا ہوں۔پھر یہ بھی ہے کہ اس میں تاثر کی کمی ہے‘بلکہ فقدان ۔اور جہاں تک مغز و معنی کا تعلق ہے،وہ بھی کوئی غیر معمولی نہیں۔جہاں تک میں اُسے سمجھ سکا ہوں مجھے تو اس کے یہ معنی معلوم ہوتے ہیں کہ آئینہ ساز نے اتفاقاَ آئینہ دیکھا اور اُسے اپنی صورت اُس میں نظر آئی تو اُسے یہ احساس ہوا کہ خود بینی کا عمل‘ جس سے خود پرستی وجود میں آتی ہے کوئی مستحسن چیز نہیں ہے اور آئینے بنا بنا کر تو وہ لوگوں کو ایسا کرنے میں مدد دے رہا ہے۔ممکن ہے کہ میں نے اس شعر میں یہ معنی ’’پہنائے‘‘ہیں۔اسلئے کہ’ عکس کی آواز ‘ کیا ہے‘ اس کے متعلق شاعر نے خود کچھ نہیں بتایا ہے۔سوا اس کے کہ’’ چونکنے‘‘ سے یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ آواز کسی ایسے امر کے متعلق تھی جس کا عام طور سے اُسے احساس نہیں ہوتا تھا۔یہی اِس شعر کی خرابی بھی ہے۔
ویسے مجھے ’عکس کی آواز ‘کی ترکیب بھی اچھی نہیں معلوم ہوئی۔یہ شعر ہے کس کا ؟برائے مہربانی مجھے لکھئے۔ مجھے امید کہ وہ صاحب میرے اِن خیالات سے کبیدہ خاطر نہ ہوں گے۔اچھے شاعر بھی کمزور شعر کہہ سکتے ہیں۔پھر یہ بھی ہے کہ ایک شخص کی (یعنی میری) رائے غلط بھی ہو سکتی ہے۔اب میرؔ کے اس شعر کو دیکھئے ،
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
کتنا لطیف‘پر مغز اور پُر اثر شعر ہے۔دیواریں ‘یعنی عمارتیں انسانوں کی ہی بنائی ہوئی ہوتی ہیں؛وہ اُن میں رہتے ہیں کام کرتے ہیں ہنستے بولتے ہیں‘ محبتیں اور نفرتیں کرتے ہیں؛ پیدا ہوتے اور مرتے ہیں۔اس لئے ہر ایک دیوار کے ایک ’انسانی‘ معنی ہوتے ہیں۔انسان کی پوری تاریخ ، انفرادی اور اجتما عی،اُن میں نظر آتی ہے۔ اگر چشم ہو ۔ پھر دیکھئے اِس شعر کا تاثر کس غضب کا ہے، چاہے تاریخی عمارتیں یا آثارہوں ؛یا وہ دیواریں جہاں ہم رہے ہیں اور جن کے سائے میں ہم سرگرمِ عمل ہوئے ہیں،دوستیاں ، محبتیں اور نفرتیں کی ہیں ۔ہمارے کتنے جذبات اور یادیں اُن سے وابستہ ہوتی ہیں؛دراصل اُن میں ہر طرف’ منہ‘ نظر آتے ہیں۔مثلاَ مجھے اِس وقت حیدرآباد سندھ کا جیل خانہ نظر آرہا ہے،اور نہ صرف وہ صورتیں جو دوسال تک مجھے وہاں نظر آتی رہیں،بلکہ وہ بھی جن کے بارے میں میں نے سنا کہ اُس جیل کی دیواروں کے’’بیچ‘‘ مجھ سے پہلے رہ چکی تھیں اور پھر وہاں سے سندھ کے امیروں کے مقبروں کے سبز گنبد بھی نظر آتے تھے۔اُن کی اپنی ایک داستان تھی۔اِس طرح میرؔ کا شعر ہمارے جذبات اور ہماری عقل و فہم دونوں کی تربیت اور تزئین کرتا ہے‘ اور یہی شاعری کا بلند ترین منصب ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ نیازمند سجاد ظہیر اس خط کا میں نے جواب لکھا جس میں صرف شاعر کانام اور شاعر سے اپنا رشتہ بیان کیا۔ پہلا خط لفافے میں آیا تھا دوسرے کا جواب ایک پوسٹ کارڈ پر۔ جس پر اُن کا پتا درج تھا نہ تاریخ لکھی تھی:
عزیزِالقدر نسیم میاں، آپ کا خط بہت سی یادیں اپنے ساتھ لایا۔ یہ اچھا کیا کہ مجھے پہلے خط میں صبا صاحب کانام نہ لکھا شاید پھر میں بے لاگ تبصرہ نہ لکھ سکتا۔ قدرِنعمت بعدِ زوال کے مصداق اب دور ہوکر مجھے صبا صاحب اور عزیز ہو گئے ہیں۔ میرا سلام کہئے گا اور کبھی کبھی اپنی سب کی خیریت لکھتے رہئے۔
دعاگو سجاد ظہیر
ترقی پسند تحریک سجاد ظہیر کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔پروفیسر عتیق احمد کو ۱۹۹۱ء میں جب وہ سجاد ظہیر پر کتابیں مرتب کر رہے تھے جن دقتوں کا سامنا کرنا پڑا،اس کا اظہار ان کتب میں موجود ہے۔سجاد ظہیر پر سوانحی مواد کم از کم پاکستان میں اُس طرح موجود نہیں ہے جتنی سہولت کے ساتھ ہندوستان میں دستیاب ہو سکتا ہے۔اور دوسری بات یہ کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تحقیقی کام بہت کم ہوتا ہے جس کا ایک سبب جامعات کی کمی بھی ہے جبکہ ھندوستان میں یونیورسٹیاں زیادہ ہیں،معیار سے بحث نہیں لیکن ادب اور ادیبوں پر وہاں زیادہ کام ہو رہا ہے ۔ چنانچہ میں یہ بات پھر دہراؤں گا کہ اگر ہندوستان میں سجاد ظہیر جیسے اہم لوگوں پر کام ہو چکا ہے تو اس کو پاکستان تک بھی پہنچانا چاہئے۔