٭٭٭جدید ادب کا تازہ شمارہ ملا۔مضمون کی اشاعت کا شکریہ۔کیا عمدہ رسالہ نکال رہے ہیں ۔دیکھ کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔رشید امجد اور احمد ہمیش کی کہانیاں اچھی لگیں۔جوگندر پال اگلے ستمبر کو اپنی عمر کے اسی سال پورے کر رہے ہیں۔کیا اچھا ہو کہ اس موقع پر ان کے تعلق سے ایک گوشہ ترتیب دیں۔ان کی بڑی خدمات ہیں۔یہ چھوٹا سا اعتراف ضروری ہے۔ایک مضمون تو میں ہی روانہ کر دوں گا۔ علی احمد فاطمی۔ ا لہٰ آباد
نوٹ: فاطمی صاحب !آپ کا مشورہ سر آنکھوں پر۔۔۔۔آپ ہی کے تعاون سے جوگندر پال جی کا گوشہ اسی شمارہ میں شامل کیا جا رہا ہے۔(ح۔ق)
٭٭٭آپ نے جب مجھے جدید ادب کے کچھ شمارے بھیجے تھے،میں نے دوسرے ہی دن آپ کو شکریے کا خط لکھا تھا اور آپ کی کتابوں کا شتہار دیکھ کر یہ بھی آرزو کی تھی کہ ممکن ہو تو کوئی کتاب مجھے بھی بھجوا دیں۔کراچی میں لاہور کی اور لاہور میں کراچی کی مطبوعہ کتب بہت کم ملتی ہیں۔یہ عجیب المیہ ہے۔
میرے ڈراموں کا مجموعہ’’حمایت علی شاعر کے ڈرامے ‘‘انشاء اللہ اس ماہ چھپ جائے گا۔ایک کتاب اور بھی آرہی ہے’’تثلیث یا ثلاثی‘‘جو ایک محترمہ رعنا اقبال نے مرتب کی ہے۔وہ اردو یونیورسٹی کی استاد ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے مجھ پر PHDکر رہی ہیں۔اُن کی ایک اور کتاب بھی دو سال پہلے چھپی تھی’’بارشِ سنگ سے بارشِ گل تک‘‘مذکورہ کتاب میری منظوم خود نوشت سوانح حیات’’آئنہ در آئنہ‘‘پر مختلف لوگوں کے اختلافی مضامین اور میرے جوابات کا مجموعہ ہے۔سوانح حیات کی تحریر کے دوران (جو پانچ سال تک ماہنامہ ’افکار‘ میں چھپتی رہی تھی)تقریباَ ایک سال تک یہ متنازعہ تحریریں مختلف اخبارات و رسائل (اردو ،انگریزی)میں چھپتی رہی تھیں۔رعنا نے سب کو یکجا کر دیا ہے۔دوسری کتاب بھی وہ آپ کو بھیج دیں گی۔
آپ کی شخصیت بھی خاصی متنازعہ ہے اور اب بھی آپ کے خلاف مضامین چھپتے رہتے ہیں۔تازہ ادب دوست میں کسی ۔۔۔صاحب کا ایک مضمون آپ کے ماہیا کے مجموعے ’’محبت کے پھول‘‘ کے بارے میں چھپا ہے اور آپ کے بارے میں نا زیبا کلمات بھی لکھے ہیں جنہیں پڑھ کر دکھ ہوا۔اسی طرح دو ایک اور رسائل کے بعض خطوط میں بھی ایسے جملے ملتے ہیں جن سے جلے ہوئے گوشت کی بُو آتی ہے۔اختلاف بُری چیز نہیں ’’مخالفت‘‘ بُری ہوتی ہے کیونکہ اس میں انسان نیچے بھی گرجاتا ہے۔آپ کے معترضین اکثر مقامات پر اپنی سطح سے نیچے گرے ہیں۔ایسے ہی سانحے میرے ساتھ بھی پیش آئے ہیں۔اس لیے میں سارے پس منظر سے واقف ہوں۔یہ آپ کی مقبولیت کی بھی دلیل ہے۔میں نے اپنے بعض مضامین اور خطوط میں آپ کی تعریف میں بھی کچھ جملے لکھے تھے(ماہیا کے حوالے سے)تو کچھ حضرات کو ناگوار گزرا اور انہوں نے مجھے پرسنل خط لکھے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ میں آپ کو نہیں جانتا، آپ کوئی اور ہی شے ہیں،وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
ہمارے ادب میں ایسی مثالیں بہت ہیں۔میرؔ سے لے کر غالبؔ تک بلکہ علامہ اقبالؔ سے لے کر فیضؔ تک سبھی کو شکار بنایا گیاہے،کیا کیا جائے۔اردو زبان نے ’’معاشرتی تنزل‘‘کے ادوار میں پرورش پائی ہے اس لیے اردو ادیبوں میں بھی یہ خامیاں پیدا ہو گئی ہیں،وہ کسی کوبرداشت نہیں کرتے۔۔۔۔اردو میں ایک’’ جھوٹی شان‘‘ بھی پیدا ہو گئی ہے وہ مقامی زبانوں کو خاطر میں نہیں لا سکی۔مقامی زبانوں کی کوئی صنف اردو میں جگہ نہ پا سکی۔دوہا بھی لا علمی میں لکھا گیا ہے اس لیے غلط ہے۔خیر یہ ایک الگ لمبی بحث ہے۔اب اردو والوں کو اپنی بے بضاعتی کا احساس ہو رہا ہے۔اس کے تین رسم الخط بنتے جا رہے ہیں۔ہندوستان میں ہندی کی معرفت ’’دیوناگری‘‘ پاکستان میں’’ نستعلیق ‘‘اور یورپ سے لے کر امریکہ ،کینیڈا تک ’’رومن‘‘ ۔۔۔آج نہیں تو آئیندہ برسوں میں اردو کا یہی مقدر ہوگا۔
اس عالم میں اردو والوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ اردو عالمی زبان بنتی جا رہی ہے۔بقول ستیہ پال آنند۔۔۔پچاس سال اور گزرجانے دو(یعنی آئندہ نسلیں اردو کو کس حد تک اپنائیں گی)فیصلہ خود بخود ہوجائے گا۔اردو پھیل نہیں رہی،سمٹ رہی ہے۔اردو والے اردو کے بنیادی مسائل سے بالکل آشنا نہیں ہیں۔سب آپس میں لڑے جا رہے ہیں(لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں)۔آپ نے ماہیا کی صحیح صورت سے آشنا کیا ورنہ اردو میں پنجاب کے اردو شاعربھی غلط ماہیا لکھ رہے تھے۔یہ ہائیکو کا احسان ہے کہ ہماری قومی غیرت بیدار ہو گئی اور ہم نے ماہیا کی طرف دیکھا ورنہ اب سے پہلے کس نے ماہیا لکھا تھا ۔گنتی کے چند حضرات نے اور وہ بھی غلط۔یہ بھی لمبی بحث ہے اس لیے چھوڑتا ہوں۔آپ دلبرداشتہ نہ ہوں،ایسی مخالفتیں کسی کا کچھ نہیں بگاڑتیں۔بس لکھتے رہیء۔انشاء اللہ لوگ خود ہی مان جائیں گے۔ حمایت علی شاعر۔کراچی
٭٭٭’’جدید ادب ‘‘ کا رنگ روپ مزید نکھرتا چلا آرہاہے۔ یہ ایک عالمی دائرہ اثر کا پرچہ ہے مگر پیارے اس شوق میں تم ہاتھ کچھ زیادہ نرم کرتے جا رہے ہو۔ خصوصاً غزلیں تو متاثر نہیں کرتیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سینئر اوراہم غزل گو شاعروں سے رابطے بڑھائے جائیں اور اچھی غزلیں شامل اشاعت کی جائیں۔ امید ہے تم میرے ذوق کو بحال رکھنے میں میری مدد کرو گے۔ باقی تمام پرچے کی چیزیں اچھی ہیں۔نارنگ صاحب صاحبِ علم انسان ہیں ان کا انٹرویو بہت اچھا نہ اتنابقراتی کہ مجھ جیسے دیہاتی کے سر سے گزر جائے نہ اتنا سپاٹ کہ ہاتھ تو کچھ نہ آئے۔ برادرم گلزار جاوید انٹرویو لینے میں ماہر ہیں اور انہوں نے سیکڑوں ادیبوں اورشاعروں کے(سوائے میرے جس کا کوئی امکان بھی نہیں کہ میں ان کا پسندیدہ تخلیق کار نہیں ہوں)کرائیں اور ان پر مشتمل کتاب ہی چھاپ دی ہے۔ سوال بھی اچھے ہیں اور جواب دینے والے تو نارنگ صاحب ہیں۔ وہ بھی منجھے ہوئے ۔ ہوشیار انٹرویو دینے والے دانشور ہیں جو پاک و ہند میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔ یہ تو ازن رکھنا بہت معرکہ ہے۔ نارنگ صاحب خوب سمجھتے ہیں۔بہر حال یہ ایک اچھا انٹرویو ہے۔ افسانے سبھی اچھے ہیں مگر انشائیے کہاں ہیں؟
شکیب جلالی کا گوشہ بھی قابل قدر ہے۔ شکیب نے غزل کونئی ڈکشن دی ہے اوراپنے وقت میں پورے عہد کو متاثر کیا ہے۔ شکیب جلالی کے ایک بہت قریبی دوست تھے لاہور کے سیف زلفی جو میرے بہت عزیز دوست تھے جن کا مشہور شعرہے۔ کوفے کے قریب ہو گیا ہے لاہور عجیب ہو گیا ہی
’’جدید ادب ‘‘ بلاشبہ ایک بہت قیمتی اور قابل ستائش علمی و ادبی رسالہ ہے۔
پیارے حیدرقریشی تم رسالے کے ایڈیٹر ہو اس لیے ایڈیٹر کی تعریف کرنی اچھی نہیں ہوتی ۔ بس میں اتنا کہتا ہوں کہ تمہاری غزل اس شمارے کی غزلوں کا انتخاب تھا ۔ اتنے مشکل اور کڈھب اور خشک قوافی میں اتنی تازہ ۔پر لطف اور پرمعنی غزل ، لطف آگیا۔ میں نے کئی بار پڑھی۔ میں ہر شمارے میں تمہاری چار پانچ غزلوں کی توقع رکھتا ہوں ۔ آخر تم کیا کرتے رہتے ہو۔ غزل تمہاری بہت بڑی پہچان ہے۔ ادھر توجہ دو۔ اکبر حمیدی۔اسلام آباد
٭٭٭تازہ شمارہ مل گیا۔فہرست پر نظر ڈالی،قائل ہو گیا۔ضرور آپ کے پاس جادو کی چھڑی ہے۔یوں روشن جان ہوئی۔آپ جو کام کر رہے ہیں،جاری رکھئے۔اس سے بڑا کام کیا ہو گا۔مقصود الہٰی شیخ۔انگلینڈ
٭٭٭جوگندر پال صاحب کے پاس جدید ادب کا تازہ شمارہ نمبر ۴دیکھا۔رسالہ ہر اعتبار سے معیاری ہے۔پسند آیا۔اتنے خوبصورت پرچے کی آپ نے کوئی قیمت نہیں رکھی اور اعلان کیا ہے کہ ڈاک خرچ بھیج کر اسے مفت منگایا جا سکتا ہے۔بھئی اس ہوش رُبا گرانی میں یہ آپ کے دل گردے کی بات ہے اور اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ابھی اردو کے کچھ دیوانیباقی ہیں جنھوں نے بادِ مخالف کے باوجود شمع اردو کو روشن کر رکھا ہے۔آپ صحیح معنوں میں اردو کے عاشق صادق ہیں۔خدا کرے آپ تمام بلاؤں سے محفوظ رہ کر اسی تن دہی کے ساتھ اردو زبان و ادب کی زلفیں سنوارتے رہیں۔ کاوش پرتاپ گڈھی۔دہلی
٭٭٭(بنام نذر خلیق)جدید ادب اور حیدر قریشی اردو ماہیا کی محبت عام کر رہے ہیں اس بار میں نے خاص طور پر اس سمت توجہ دی ۔ ماہیا ہماری لوک روایت کی وہ ریت ہے جو دلوں کو جیت لینے کے ہنر کی وارث ہے۔ ہمارے کشادہ ظرف منظروں سر سبز کھیتوں ، چھتنار پیڑوں، گنگناتے دریاؤں ، چہچہاتے پرندوں اور مہکتے پھولوں کی رعنائیاں تخلیقی دانائیوں سے توانائیاں لے کر بانسری کی مدھرتا نوں میں اڑانیں بھرتی ہیں تو رہتل کی وسیع و عریض فضاؤں میں چاندنی بھری آواز کے راز بکھرنے لگتے ہیں۔ دکھ سچے ہوں تو سکھ بن جاتے ہیں۔ کبھی آپ نے روتی ہوئی آنکھوں میں آنسوؤں کی قوسِ قزح کا نظارہ کیا ہو تو میری بات کی گرہ کھلتے دیر نہیں لگے گی۔ شہنائی کی گونج میں دبی سسکیوں کا کرب محسوس کر لینے والے دلوں کی دھڑکنوں کے ہم سفر ہو کر ایسے لفظ تخلیق ہوتے ہیں ہر اہل درد جس کی تصدیق اپنے لہو کی خوشبو میں ڈوب کے کرتا ہے اسی مہکار کی بہار کا نام ماہیا ہے! سعادت سعید نے انقرہ میں بیٹھ کر اپنی مٹی کی مہک عام کرنے کی تخلیقی کاوش کی ہے۔ ترنم ریاض نے دہلی سے خوبصورت ماہیے بھیجے ہیں مگر مجھے زیادہ مزا مرتضیٰ اشعر کے ماہیوں نے دیا ہے۔ شاید یہ ملتانی مٹی کا اعجاز بھی ہو۔کیا خیا ل ہے؟ برادرم حیدر قریشی کوسلام۔ محمد فیروز شاہ۔میانوالی
٭٭٭جدید ادب کا شمارہ نمبر 4مکمل پڑھ لینے کے بعد ایک بار پھر اسی الجھن نے آگھیرا ہے کہ میں مضافات کا باسی ہوں ۔میں کسی بڑے شہر میں شہرت کی سیڑھی پر بیٹھا سانس لے رہا ہوتا تو اب ذہن میں جدید ادب کے مطالعے سے جو ایک دھنک سی اتری ہے اس کو مکمل قلم بند کر کے ملک کے کثیر ا لاشاعت روزنامہ اخبار میں بھیج دیتا ۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ بات دور تک پہنچ جاتی۔ہمارے میانوالی کے اپنے لہجے کے یکتا شاعر محمد مظہر نیازی نے ٹھیک ہی کہا ہے
نور سے دور سیہ رات میں زندہ رہنا کتنا مشکل ہے مضافات میں زندہ رہنا
مجھے معلوم ہے ہمارے یہاں کے اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں کی اپنی ترجیحات اور اپنے مفادات ہیں ۔اس لیے خیال آیا کہ جدید ادب کا اپنا ایک دائرہ ہے اور وہ دائرہ اتناوسیع ہے کہ سرحدیں اس کے سامنے اب بے معنی ہو گئی ہیں ۔میرے ساتھ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ بچپن سے ہی مکمل مطالعے کی ایسی عادت developeہو گئی ہے کہ ادھورے مطالعے کی سوچ ہی سوہانِ روح ہے۔جریدہ جب مکمل پڑھ لیتا ہوں تو پھر بے چینی دامن گیر ہوتی ہے کہ اپنی یہ خوشی کس کے ساتھ جا بانٹوں۔ہمارے کہے سے ناراض نہیں ہونامتعد قلم کار اپنی تحریر کو فہرست میں شامل دیکھ کر جریدہ ایک طرف ڈال دیتے ہیں ۔اسی زاویے کے بدلنے کو بوریوالا(پاکستان) سے نکلنے والے ادبی جریدے ’’ حریمِ ادب ‘‘ کے مدیر ڈاکٹر جاوید حیدر جوئیہ نے حریمِ ادب 2‘‘ میں قلم کار کے نام کی بجائے صرف اصنافِ سخن کی فہرست ڈال دی۔سوال یہ ہے کہ جرمنی میں مقیم حیدر قریشی صاحب نے کرۂِ ارض پہ ملکوں ملکوں اردو ادب کے بکھرے قاری کی مطالعاتی تشنگی کی سیرابی کے لیے کیا سامان کیا۔جگر لہو ہو تو تخلیق مکمل ہوتی ہے آنکھ رتجگے کاٹے اور مدیر کا وجدان تفکر کی سولی پر لٹکے تو کہیں جا کر ایک ادبی جریدہ مکمل ہوتا ہے۔۔۔۔تب یہ کہا جاتا ہے
رائن سے چناب ملا
کوئی حقیقت تھی
ٍ یا خواب سے خواب ملا
قلم انسانی قلوب کی تالیف کے سفر پر نکلے تو صدیاں سرخرو ہو جاتی ہیں ۔حیدر قریشی کی ’’گفتگو ‘‘توجہ طلب ہے۔وہ بات کہہ نہیں رہے عملی قدم اٹھا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی احمد فاطمی کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ ’’ پریم چند کو نظر انداز کرنایا ان کے کاموں کی نفی کرنااپنی پوری وراثت‘ ارضیت تہذیب وثقافت کی نفی کرنا ہے‘‘پریم چند کے فن‘ اردو زبان اور افسانے پر پریم چند کے اثرات کے حوالے سے ’’پریم چند روایت ساز یا روایت شکن‘‘ ایک عمدہ مضمون ہے۔ڈاکٹر شفیق احمد کا ’’ مرے استاد‘ مرے رہنما‘‘ نہ صرف ان کے والد محترم اور اساتذہ کا خاکہ ہے بلکہ انہوں نے تکریم کے ساتھ ساتھ ان کی محبتوں کی خوشبو اور علم کی روشنی کو بھی اپنے قلم سے قاری کے لیے رہنما بنا دیا ہے۔نصرت ظہیر نے ’’ پروفیسر نارنگ کا تخلیقی اسلوب‘‘ میں جہاں ان کے فن کا سراہا اور ان کی ادبی قدوقامت کا اعتراف کی اہے وہیں اس موضوع پر خوبصورت بات کہی ہے جس کا سامنا افسانہ نگار‘شاعر اور جینوئین تخلیق نگار کو ہے ۔میں سوچ رہا ہوں کہ کیا نصرت ظہیر کی اس بات سے اتفاق کر لیا جائے جو انہوں نے یہ کہا ہے’’اس تجارتی ماحول میں تخلیق کار کے برعکس ناقد کے ہاتھ زیادہ نقدی آنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج اعلیٰ درجے کا ادب بہت کم لکھا جا رہا ہے۔‘‘ نصرت ظہیر ‘بات اتنی سی ہے کہ کوئی جگر لہوکرکے تخلیق گری کے عمل سے گزر کر جوہرِ نایاب لائے گا تو ہی ناقد کی دکان چلے گی۔اچھا ادب تخلیق نہیں ہوگا تو ناقد تو بیٹھا اپنی دکان پر مکھیاں مارے گا۔ناقد کا وجود تخلیق کار کا ہمیشہ مرہونِ منت رہتا ہے۔میرا خیال ہے اچھا ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ہاں آپ کی اس بات سے اتفاق کہ کم ہو رہا ہے۔دوسری عرض کہ جس میں TalentاورPotencialہوتا ہے اس کو وقت تسلیم کر لیتا ہے۔میرا جی اور مجید امجدکی طرح اسے ہزار نظر انداز کیا جائے وقت ان کو صفِ اول میں لا کھڑا کرتا ہے۔’’تازہ واردانِ بساطِ نقد‘‘ میں ناصر عباس نیر نے جو اردو تحقیق وتنقید میں اپنے علم اور قابلیت کی بنیاد پر کم عمری میں ہی اساتذۂِ فن میں صف میں شامل ہو گئے ہیں ۔انہوں نے بہت خوبصورت اور نپے تلے انداز میں اپنے مضمون میں اختصار اور جامعیت کے ساتھ نہ صرف تازہ واردانِ بساطِ نقدکو متعارف کرایا ہے بلکہ ان کے فن پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ناصر زیدی کی آغا بابر پر بے ساختہ تحریر پسند آئی۔نذر خلیق صاحب نے جدید ادب 3اور شمارہ نمبر 4میں اردو کی جو اہم ویب سائیٹس متعارف کرائی ہیں ہم ان کے شکر گزار ہیں ۔شکیب جلالی کا گوشہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں جہاں ان کے فن پر بحث موجود ہے وہیں ان کی ایک ویب سائیٹس کی خوشخبری بھی موجود ہے جو عنقریب www.shakebjalali.comکے ساتھ اہلِ علم کے لیے ایک خزینہ ثابت ہو گی۔میرے پاس ’’ روشنی اے روشنی ‘‘ کا پرانہ نسخہ موجود تھاجو ماوراء کے خالد شریف نے طبع کیا ۔گزشتہ برس خبر ملی کہ ماوراء نے ہی شکیب جلالی کے شعری مجموعے ’’روشنی اے روشنی‘‘ کا نیا ایڈیشن شائع کیا ہے جس میں غیر مدون کلام موجود ہے ۔لیکن وہ کوئی اتنا زیادہ اور قابلِ ذکر کام نہیں ہے آٹھ دس صفحات کے اضافے سے جو کلام ادبی جراید سے دستیاب ہو ا اسے شامل کیا گیا ہے۔ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے ہمیں کلیاتِ شکیب جلالی کی نہ صرف خبر دی بلکہ گوشہ دے کرادب پروری حق ادا کر دیا۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا مضمون ’’ شکیب جلالی کی غزل‘‘ اور پروفیسر اسلوب انصاری کا مضمون’’ غزل گو شکیب جلالی‘‘خاصے کی چیز ہیں ۔میرے ذہن کی روش پر شکیب جلالی کا ایک شعر برسوں سے چہل قدمی میں رہتا ہے۔
کیا کہوں دیدۂ تر ‘یہ تو مرا چہرہ ہے سنگ کٹ جاتے ہیں ‘بارش کی جہاں دھار گرے
حیدر قریشی صاحب اب کی بار ہمارے جدید ادب میں احمد ہمیش کا افسانہ ’’ ایک ناگوار کہانی‘‘ سرِ فہرست رہا۔یہ ایک ایسی ناگوار کہانی ہے جس کا سامنا کروڑوں کو ہے لیکن اس احساس اور کرب کو ایک قلم کار ہی امر کر سکتا ہے زبان دے سکتا ہے۔سہ ماہی تشکیل اور اردو نظم میں معتبر ترین حوالہ رکھنے والے احمد ہمیش یقینی طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں ۔منہدم ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی سرزمین سے سرور عالم راز سرور کا افسانہ’’ زادِ راہ‘‘اپنے بطون میں گداز رکھتا ہے اور افسانہ نگار نے treatmentکو بھی خوب نبھایا ہے۔افسانے پر ان کی گرفت کمزور نہیں ہوئی قاری بھی ان کے ساتھ ساتھ رہا لیکن آخر میں افسانہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔اس لمحے مجھے ’’ سوغات‘‘ کے محمود ایاز مرحوم بہت یاد آئے ۔وہ تخلیقات پر بہت بے لاگ اور کھری بات کیاکرتے تھے۔اب تو ہمارے مکاتیب اکثر اوقات مدلل مداحی ہوتے ہیں۔اگر کہیں کوئی بات کہ دی جائے تو قلم کار کی ناراضگی کا ڈر دامن گیر رہتا ہے۔سرور عالم سے درخواست ہے کہ جب اس افسانے کو اپنے مجموعے میں شامل کریں تو اختتام کے حوالے سے اس درویش کا ایک مشورہ ہے۔
’’ مختار بیڑی والا افسانہ بن چکاتھا
جب ہم پلٹ کر آئے تو تھکن کے باوجودکاظم کے چہرے پر اطمینان تھا۔ وہ میرے چہرے پر کوئی تحریر تلاش کر رہا تھا
سرور۔۔۔تم نے مجھ سے پوچھا نہیں کہ میں نے کفن میں کیا رکھا تھا۔۔؟
میں نے ایک نظر کاظم کو دیکھااور جیب سے بیڑی کا بنڈل نکال اس کے سامنے رکھتے ہوئے نرمی اور ملائمت سے کہا
میرے دوست۔۔۔! گزر جانے والوں کو ایسے تحائف نہیں دیے جاتے ٭٭٭
ڈاکٹر بلند اقبال کا افسانہ ’’ یہ کیسی بے وفائی ہے‘‘ گو‘ قومِ لوط کے فعلِ بد لواطت کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔لیکن اس موضوع کا تقاضا تھا کہ اسے نبھایا جاتا۔بلند اقبال قرآن‘ حدیث اور فقہ کےRefferanceکے ساتھ عہدِ حاضر کے عذاب ایڈز تک اور پھر مغرب میں رہنے کی وجہ سے Gay Clubاور ان کی سوسائیٹی کو سامنے رکھتے ہوئے افسانے کو وقت دیتے تو وہ ایک بڑا افسانہ تراش سکتے تھے۔افسانہ خونِ جگر مانگتا ہے‘وقت مانگتا ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا انسان کو اپنے زندہ وجود اور روح سے ایک ٹکڑا کاٹ کر افسانے کو دینا پڑتا ہے ۔یہ صنفِ سخن قلم کار کے اعصاب کو توڑ پھوڑ دے تب افسانہ تخلیق ہوتا ہے۔
نظموں کے محل میں وقت کو میں نے باہر صدر دروازے پر ہی چھوڑ دیا اور تسلی سے ڈاکٹر وزیر آغا‘رفیق سندیلوی‘افضل عباس‘ترنم ریاض‘فیصل عظیم ‘جانِ عالم ‘ طاہر مجید‘ناہید ورک‘فرحت نواز شیخ کی نظموں کے ساتھ عمر گزاری۔میں نے جدید ادب کے نظم محل میں فیصل عظیم کی نظم’’ ورلڈ ٹریڈ سنٹر‘‘ کی گونج سنی نظم سماعتوں سے ٹکراتی اور بھٹکتی بے چین ارواح سے سوال کرتی تھی ۔لاریب ! بہت وقیع نظم ہے۔رفیق سندیلوی تو نظم محل میں اس شان و شوکت سے اپنی مسند پر متمکن تھے کہ بات ہی اور تھی ۔ان سے ’’ جیسے کوزہ نہیں جانتا‘‘ بار بار سنی گئی۔’’ کیک کا ٹکڑا‘‘ اک مائع گیر آتش گیر‘‘پروں تلے‘‘کنبے کے ہمراہ‘غسلخانے کی حکایت اور مگر مچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے‘‘ ان کی ایسی نظمیں تھیں جنہوں نے قاری کے وجدان پر دستک دی اور روح کا جا چھوا۔یہ طے ہے رفیق سندیلوی نے اردو نظم میں اس ہدف کو جا لیا ہے جہاں سے قلم کار کو صدیوں میں دھڑکنے کی نوید ملتی ہے۔ایسی نظموں پر ان تک مبارک باد پہنچے۔
یہ آپ نے اچھا کیا گلزار جاوید کا ڈاکٹرگوپی چند نارنگ سے مکالمہ جدید ادب میں شائع کر دیا۔میں نے اس کا پرنٹ اس وقت نکال رکھا تھا جب آپ نے اسے انٹر نیٹ پر Releaseکیا۔انٹر ویو کاایک صفحہPrintنہیں ہو پایا تھا۔اب یہ دستاویز مکمل محفوظ ہو گئی۔استعارہ کے صلاح ا لدین پرویز کے ’’محبت کے ساتھ سٹروک‘‘ اردو نظم کی آبرو ہیں ۔ صلاح ا لدین پرویز نے اردو ادب میں اپنے راستے کا چناؤ خود کیا ہے اور خوب کیا ہے ۔سہ ماہی ’’ استعارہ‘‘ سے’’ دی وار جرنلس‘‘ اور نظموں میں نئے جہانوں کی تلاش نے ارود ادب کو ثمر بار کیا ہے۔
بات بہت طویل ہو گئی۔منشاء یاد کے ’’ شہرِ افسانہ‘‘ پر آپ نے جم کرلکھا ہے۔جس انداز میں اس انتخاب کو آپ نے معتارف کرایا ہے وہ اس بات پر دال ہے کہ آپ نے کتاب کا عرق ریزی سے مطالعہ کیا ہے۔حیدر قریشی اسے ادب کی بے لوث خدمت کہتے ہیں۔اسے اخلاص کہتے ہیں ۔اسے ادب پروری کہتے ہیں۔جدید ادب کے قد کو ماپنا ہو تو اسی شمارے میں محترم وزیر آغا صاحب کی ادبی کتاب کے مطالعے کے حوالے سے ایک خوبصورت Quotationموجود ہے۔۔۔اسی پر میں اپنے تبصرے کو سمیٹتا ہوں ۔ڈاکٹر وزیر آغا کا کہنا ہے
’’ ادبی کتاب کا مطالعہ علم میں اضافہ کے لیے نہیں روح کی سیرابی کے لیے ہوتا ہے۔علمی کتاب بھی کائینات اور زندگی کے اسرار کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے مگر فہم وادراک کی سطح پر۔جبکہ ادبی کتاب زندگی کے اسرار کومحسوس کرنے کا نام ہے‘‘( روزنامہ پاکستان۔۹۲؍اپریل ۲۰۰۵ء میں شائع ہونے والے تفصیلی تبصرہ کا ایک اہم حصہ)
حامد سراج ۔چشمہ بیراج،میانوالی
٭٭٭جدید ادب کا شمارہ ۴اس بار براہِ راست ملا۔اچھا لگا۔مندرجات سارے عمدہ ہیں۔صبا اکبرآبادی کی نعت میں کتابت کی یا پروف ریڈنگ کی فاش غلطیاں ہیں۔مناسب سمجھیں تو اسی نعت کو کتابت کی غلطیوں سے پاک کر کے دوبارہ چھاپ دیں ۔علی احمد فاطمی،ڈاکٹر شفیق احمد اور ناصر عباس نیر کے مضامین پسند آئے۔نصرت ظہیر کے مضمون کے اس حصہ کا بطور خاص مزہ آیا۔’’نہ جانے کتنے ایسے ادیب ہیں جو تخلیق کے میدان میں دو فٹے بن کر سامنے آئے تھے اور آج نارنگ صاحب کی تنقیدوں کی بدولت ساڑھے سات فٹے بنے گھوم رہے ہیں‘‘ ۔رشید امجد اور احمدہمیش کے افسانے اچھے لگے ۔ نظموں میں ویسے تو کئی اچھی نظمیں شامل ہیں لیکن رفیق سندیلوی نے جیسے باندھ لیا ہے۔ماہیے اور غزلوں کے حصے بھی
ا چھے ہیں ،لیکن یہ احسان سہگل صاحب کی غزلیں ۔۔۔۔۔ ؟ کتاب گھر کی پیش کش کا انداز عمدہ ہے اور جدید ادب کی پہچان بھی ۔ ۹ مارچ ۲۰۰۵ء کوپاکستان ٹیلی ویژن کے ادبی پروگرام’’کیفے ادب‘‘ میں جدید ادب کے اس شمارہ کا بھر پور تذکرہ ہوا ہے۔ آپ کی غزل کا خصوصی ذکر ہوا۔ اس پروگرام کو معروف ٹی وی پروڈیوسر اور خوبصورت شاعر تاجدار عادل پروڈیوس کرتے ہیں۔ سعید شباب۔خانپور
٭٭٭جدید ادب کا چوتھا شمارہ(جنوری تا جون ۵۰)موصول ہوا۔یہ شمارہ بھی اپنے وزن و وقار اور معیار و افتخار کے حوالے سے ادبی دستاویزی حیثیت کا حامل ہے جو آپ کو عاشقانِ اردو اور جاں نثارانِ ادب کی صفِ اول میں لے جا کر کھڑا کر دیتا ہے۔مغرب کی ہولناک مصروفیت کے با وصف ایسے معیاری اور قیمتی صحیفے کا اجراء اور اس کی مفت تقسیم کسی کرشمے سے کم نہیں۔آفرین!۔۔۔نظم و نثر کی سبھی اصناف سے متعلق سبھی مشمولات قابلِ تحسین ہیں۔سبھی شرکاء کو ان کی قابلِ قدر تخلیقات پر صمیم قلب سے ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں۔ رفیق شاہین۔علی گڑھ
٭٭٭یہاں لندن سے بھی ادبی رسالے نکل رہے ہیں مگر میری رائے جو آپ کو خوش کرنے کے لیے نہیں ہے،وہ یہی ہے کہ یوروپ سے ایسا معیاری رسالہ اور کوئی نظر سے نہیں گذرا۔مضامین ہوں کہ افسانے ہوں،نظمیں ہوں کہ غزلیں یا آپ کے من پسند ماہیے،سب میں آپ حضرات کی محنت واضح نظر آتی ہے۔میری جانب سے مبارکباد!میں یہ رسالہ اور دوستوں کو بھی پڑھنے کے لیے دے رہا ہوں۔ مصطفیٰ شہاب۔لندن
٭٭٭کل انٹرنیٹ پر آپ کی کچھ کتابیں دیکھیں،اچھی لگیں،نیز ’’جدید ادب‘‘کے دو شمارے بھی مطالعے سے گزر چکے ہیں۔صبا اکبرآبادی کی تضامین بہت خوبصورت رہیں۔۔۔۔شمارہ ۳۔۴میں ترنم ریاض کے ماہیے بہت متاثر کر گئے۔ترنم ریاض بہت با صلاحیت خاتون ہیں۔وہ جس فیلڈ میں بھی قدم رکھتی ہیں،کمال کر دیتی ہیں۔ویسے وہ افسانہ نگار مشہور ہیں مگر حال ہی میں ان کا ناول’’مورتی‘‘ شائع ہوا ہے ۔یہ ناول تیکنیک،پلاٹ اور موضوع کے لحاظ سے خوبصورت ناول ہے۔میں نے انہیں فون کیا تھا اور دورانِ گفتگو آپ کا ذکر ہوا تو انہوں نے آپ کے خاکوں کی تعریف کرنی شروع کر دی۔۔۔۔۔ محمد ظہیرالدین دانش۔عثمان نگر۔کڑپہ
٭٭٭ ’’جدید ادب‘‘ شمارہ ۴؍جنوری تا جون ۲۰۰۵ء گفتگو سے لے کر مضامین، کلیات شکب جلالی ، غزلیں، افسانے، نظمیں، خصوصی مطالعہ، ماہئے سب کے سب معیاری ہیں! گفتگو میں آپ ہر وقت ایک نیا پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے تمام قلم کاروں کو اظہار و خیالات پیش کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ جس کی میں ستائش کرتا ہوں، سرقہ یا جعلسا ز ی انٹرنیٹ مکالمہ بھی قلم کاروں اور قارئین کو توجہ کرنا ضرورت اور اہمیت ہے۔! ہمیشہ کی طرح تبصرہ بھی خوب سے خوب تر ہے۔آپ کے خطوط اور ای میل مطالعہ سے جدید ادب کا مقام، آپ کی اور بھی مشاورت و اعزازی مجلس ادارت کے کاوشوں کا پتہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں جدید ادب قائم رکھنے کے لئے اور آپ حضرات کی صحت، عمر درازی ہمت اور طاقت عطا فرمائے(آمین)۔ اسحاق ملکؔ ۔حیدر آباد
٭٭٭جدید ادب جیسا پرچہ پاکستان سے باہر رہتے ہوئے چھاپنا کس دل گردے کا کام ہے،یہ آپ سے بہترکون جانتا ہوگا۔مگر واقعی برا کام کیا ہے آپ نے۔بہت مبارکباد قبول کیجئے۔اس پرچہ نے ایک نئی امید پیدا کی ہے ہم سب کے لیے ، خصوصاَ ہم لوگوں کے لیے جو ملک سے باہر رہتے ہیں۔اردو رائٹرز کے والے سے جو کچھ چھاپا اردو ادب کے لیے بالکل نیا ہے ۔مضمون کے اعتبار سے بھی کسی قدر اور انداز کے حوالے سے بہت۔اللہ آپ لوگوں سے یونہی ہماری رہنمائی کرواتا رہے۔ فیصل عظیم۔امریکہ
٭٭٭آپ نے سرقہ و جعلسازی میں ملوث مجرموں کو بے نقاب کرنے کی خوب ٹھانی ہے۔۔۔۔۔غزلوں کے اشعار یا نظموں کو چھوڑیے ڈاکٹر ابو محمد سحر کے پی ایچ ڈی کے مقالے’’مطالعۂ امیر مینائی‘‘کو کرناٹک کے ایک استاد نے ہوبہو اڑالیا اور امیر مینائی کی جگہ’’داغ‘‘ کا ذکر اور اشعار ڈال کر اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لی اور کمال یہ کہ یونیورسٹی کی مالی اعانت سے اپنا مقالہ شائع بھی کروایا۔۔۔۔سارقوں کو بے نقاب کرنے کا یہ اچھا سلسلہ ہے۔کسی کے علمی سرمائے پر ہاتھ ڈالتے ہوئے مجرم ضرور کم سے کم دو دفعہ سوچے گا۔ رؤف خیر۔حیدرآباد،انڈیا
٭٭٭جدید ادب کا تازہ شمارہ نظر سے گزرا۔بہت پسند آیا۔نثری حصہ ہمیشہ کی طرح جاندار اور معیاری ہے۔شعری حسہ میں ترنم ریاض،رئیس الدین رئیس،وزیر آغا،رفیق شاہین،فراز حامدی،صلاح الدین پرویز،اقبال حمید اور آپ کی تخلیقات نے از حد متاثر کیا۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ سے لیا گیا انٹرویو کافی دلچسپ ہے۔ نسرین نقاش۔سری نگر