گاتی ہے بجاتی ہے
گانے کے پردے میں
وہ غم کو چھپاتی ہے
دیوانی سی لگتی ہوں
روتا ہے دل میرا
اور میں ہوں کہ ہنستی ہوں
آنکھوں میں گھرے بادل
بھیگ گئیں پلکیں
اور پھیل گیا کاجل
سانسیں سی اٹکتی ہیں
کرچیاں یادوں کی
آنکھوں میں کھٹکتی ہیں
یاد آتے ہیں جب اپنے
نینوں میں چبھتے ہیں
مٹی میں اٹے سپنے
مرہم رکھ لفظوں کے
زخم بھرے میں نے
بیگانوں کے،اپنوں کے
وہ غیر نہیں مجھ کو
اُس کی وفاؤں پر
ہے کتنا یقیں مجھ کو
یہ شام کی بیلا ہے
چھائی ہوئی مستی
دل ہے کہ اکیلا ہے
جب چاند چمکتا ہے
چاند میں ساجن کا
مکھڑا سا دمکتا ہے
مجبوری نے گھیرا ہے
آؤں سجن کیسے
ہر گام پہ پہرا ہے
کیا دل پہ کیا ٹونا
بھول گئے نیناں
راتوں کو سجل سونا
جب دل پہ گھٹا چھائی
دل کے دھڑکنے کی
آواز نہیں آئی