قرآن ملا جن سے
نام محمدؐ ہے
ایمان ملا جن سے
بخشش کا ذریعہ ہے
اشک ندامت کے
دو بوند بھی دریا ہے
احساس جگائے رکھ
درد سے دل اپنا
ہر وقت سجائے رکھ
لفظوں کی حقیقت کو
اپنے بڑوں کی تُو
سمجھا نہ نصیحت کو
رہ رہ کے ستاتے ہیں
خواب لڑکپن کے
پِیری میں ستاتے ہیں
گھاگر ہے ،نہ پنگھٹ ہے
گیت نہ گوری اب
چہروں پہ نہ گھونگٹ ہے
بچپن سے جوانی تک
پھول ،چمن، تتلی
خوشبو سے کہانی تک
غربت میں پلی تھی وہ
بن نہ سکی دلہن
ارتھی پہ سجی تھی وہ
مہندی ہے،نہ کاجل ہے
دھوپ جلی لڑکی
سایا ہے نہ آنچل ہے
وہ نین غزالوں سے
دور ہوئے چہرے
چلمن سے،نقابوں سے
طوفان اٹھا ہوگا
دل میں تمنا کا
ارمان جگا ہو گا
جو یاد پرانی ہے
پھول سی خوشبو ہے
کہنے کو کہانی ہے