انجلاء ہمیش(کراچی)
آدمی کی آنکھ سے جو آنسو گرا
تو کتنی ہی آنکھوں نے نے اُسے ان دیکھا کیا
آدمی جب تکلیف سے چیخا
تو اُس کی چیخ بہت سی آوازوں میں دب گئی
آدمی نے آدمی کو ختم کرکے تمغے تو جیتے
مگر آدمی نے آدمی کے ہاتھوں ظلم نہ روکا
وہ جن کے وجود زمین سے مٹادیے گئے
وہ چند لمحوں کی خاموشی سے واپس تو نہیں آئیں گے
وہ جگہیں جو کبھی نہ بسنے کے لئے اجاڑ دی گئیں
وہ کچھ پل کے احتجاج سے پھر آباد تو نہ ہونگی
اور وہ ……
جو ہر حال میں ہردن جشن برپا کیے ہوئے ہیں
ان کی روحیں مرچکیں ہیں
ان کی جسم گَل چکے ہیں
انہیں نہیں معلوم
وہ تو اپنے زوال کا جشن منارہے ہیں
بس کچھ وقت کا ہے یہ سارا کھیل
زمین سب کو کھا جاتی ہے
جب وہ اپنی خاموشی توڑتی ہے