شفیق مراد(جرمنی)
عجب مشکل میں اب یہ داستاں ہے
زمیں نیچے نہ اوپر آسماں ہے
خلاؤں میں بھٹکنا ہے مقدر
خلاؤں میں ملی کس کو اماں ہے
وہی اندیشۂ سودو زیاں ہے
انہی پہ پھر محبت کا گماں ہے
نہ کوئی زخمِ دل،نہ چارہ گر ہے
نہ کوئی تیر ، نہ کوئی کماں ہے
نہ جانے کس نے لکھا میرا قصہ
نہ جانے کون میرا ترجماں ہے
مجھے کچھ تو بتا دے دورِ ہجراں
کہاں ہوں، کہاں میرا نشاں ہے
عجب الجھن سی رہتی ہے مجھے اب
یہ دل میرا ہے یا تیرا مکاں ہے
مکینِ جسم و جاں اور ہر جگہ ہے
سبھی کہتے ہیں کہ وہ لا مکاں ہے