ناصر نظامی(ہالینڈ)
گو پہلے سے پہرے وہ قفس پر نہیں اپنے
اب اُڑنے کی خواہش ہے مگرپر نہیں اپنے
سُورج کی تمازت سے کہیں ٹوٹ نہ جائیں
سیلاب کی زد میں تو رہے گھر نہیں اپنے
اِس بار شبِ جبر کو سر کرکے رہیں گے
یا دستِ ستم گر نہیں یا سر نہیں اپنے
گُل مانگیں تو ہم خارِ مغیلاں بھی نہ پائیں
اتنے تو گئے گزرے مقدر نہیں اپنے
اک عمر ہمیں روتے ہوئے گزری ہے لیکن
آنکھوں کے کبھی گوشے ہوئے تر نہیں اپنے
گو وقت کی بے مہری سے ہم ٹوٹ گئے ہیں
حالات کے قدموں پہ جھُکے سر نہیں اپنے