رفیق شاہین(علی گڑھ)
جہت جہت ہے خلا ہی خلا کہاں ہوں میں
فلک کا ہے نہ زمیں کا پتہ کہاں ہوں میں
شکستہ قدروں کے بے آسرا مزاروں پر
نہ کوئی پھول نہ روشن دیا،کہاں ہوں میں
یہاں بھی خونِ شہیداں سے تر ہیں ظلم کے ہاتھ
یہ شہر ہے کہ کوئی کربلا،کہاں ہوں میں
عجیب شہر ،عجب لوگ،خامشی بھی عجیب
کوئی کسی سے نہیں بولتا کہاں ہوں میں
زمین و آب و ہوا جانے موت کب بن جائیں
فنا میں ڈھونڈ رہا ہوں بقا ،کہاں ہوں میں
غرض پرست جہاں کے غرض پسندوں میں
چلا ہوں ڈھونڈنے مہر و وفا کہاں ہوں میں
نظر میں رکھا ہے مجھ کو کہ دل میں رکھا ہے
مِرا قیام کہاں ہے،بتا کہاں ہوں میں