ترنم ریاض(دہلی)
گزار دیں گے کہیں ہم بھی کھنڈروں کی طرح
کسی مقام پہ بے نام تربتوں کی طرح
کہیں خلوص پہ آئے نہ عشق کی تہمت
مرے حواس پہ چھاؤ نہ خوشبوؤں کی طرح
تمہاری چپ سے نہ ہم پر سکوت چھا جائے
اندھیری رات کے ویران مقبروں کی طرح
جو نم ہو آنکھ تو دیکھے گا غیر سا بن کر
جو روئے دل تو ہنسے گا وہ دوستوں کی طرح
نہ دشمنوں پہ بھی آئے فراق کا موسم
کوئی جدا نہ کسی سے ہو سرحدوں کی طرح
وہ ایک لفظ کا معنی نہ جان پایا کبھی
میں جس کی سوچ کو سمجھی تھی معجزوں کی طرح