راشد جمال فاروقی
آسان راستوں پہ کہاں تک سفر کروں
ایسا کروں کہ راہ کو خود پُر خطر کروں
اس ضربِ آخریں کو بھی چپ چاپ جھیل جاؤں
اب کو ن درد مند ہے کس کو خبر کروں
آواز دے رہے ہیں نئے ذائقے مجھے
کچھ راہِ مستقیم سے میں بھی حذر کروں
افکار کی رسائی کو وسعت تو چاہئے
چھوٹے سے اس جہان میں کیونکر بسر کروں
تقاد سے تو بعد میں پیشا ہی جائیگا
پہلے میں اپنے شعر کو کچھ معتبر کروں