سرور عالم راز(امریکہ)
فاصلہ کیسا ہمارے درمیاں بنتا گیا
یاں زمیں کی بات تھی، واں آسماں بنتا گیا
کوئے تنہائی ، مقام بے اماں بنتا گیا
ہر خیال یار، درد بے کراں بنتا گیا
ہائے ! گل افشانیء رنگ خرامِ ناز یار
ہر قدم پر ا ک نیا سَروِ رواں بنتا گیا
اہل دل پر راز ہستی منکشف ایسے ہوا
ہر یقیں حد سے بڑھا، بڑھ کر گما ں بنتا گیا
نامرادی نے ہمیں آسودہء غم کر دیا
بجلیاں گرتی رہیں اور آشیاں بنتا گیا
وہ بھی اک صورت تھی میرے انتہائے شوق کی
اشک خوں جس جا گرا، اک داستاں بنتا گیا
اک چراغ یاد بجھ جائے تو جل اٹھتے ہیں اور
ہجر کا ظلمت کد ہ، رشک جناں بنتا گیا
کوئی تو ہے بات سرورؔ قصہء غم میں ترے
یہ غزل جس نے سنی وہ نوحہ خواں بنتا گیا