مصطفی شہاب
میں سمندر نہ بنا جوئے رواں ہوتے ہی
بن کے جگنو نہ اڑا، شعلہ فشاں ہوتے ہی
جانچتے ہیں نہ سیاہی نہ سپیدی ہم لوگ
اٹھ کے آجاتے ہیں مسجد میں اذاں ہوتے ہی
تھے سبھی سودا گراں ایک ہی کشتی کے سوار
فائدہ سب کو ہوا، میرا زیاں ہوتے ہی
رفتہ رفتہ بھی ہوئے کام جنہیں ہونا تھا
سب اندھیرے نہ چھٹے صبح عیاں ہوتے ہی
کل عجب بات ہوئی،اوج پہ تھی سر مستی
پاس میرے ترے ہونے کا گماں ہوتے ہی
تو نہ بن جائے کہیں پہلا نشانہ میرا
میرے قابو میں ترے تیر و کماں ہوتے ہی
باغ ویران،بہاروں میں رہے اور شہابؔ
پھول جنگل میں کھلے وہ بھی خزاں ہوتے ہی