مصطفی شہاب(لندن)
دو گام رنگ و بو کا سماں راستے میں ہے
پھولوں کی اک دکان وہاں راستے میں ہے
روشن نہیں تو کیا مِری دہلیز کا دیا
جل کر بجھے دئیے کا دھواں راستے میں ہے
سورج ،زمین، چاند، ستارے، ہوائیں ابر،
اک ہم نہیں ہیں ،سارا جہاں راستے میں ہے
منزل شناس ہے مِری ہر ایک رہ گزر
ہر ایک راستے کا نشاں راستے میں ہے
شاید گھڑی یہ رختِ سفر باندھنے کی ہو
لگتا ہے کوئی خوابِ گراں راستے میں ہے
سارا سفر ہے اک سفرِ رائیگاں تو پھر
کیوں یہ سوالِ سود و زیاں راستے میں ہے
ہے اک ہجومِ تشنہ لباں گرم رو شہابؔ
لگتا ہے جیسے جوئے رواں راستے میں ہے