رئیس صدیقی(دہلی)
جو آدمی کو پرکھنے میں بھول کرتا ہے
وہ زندگی کے تقدس کو دھول کرتا ہے
ہمارے دل میں عداوت کا کوئی کام نہیں
محبتیں یہ سبھی کی قبول کرتا ہے
اُسے ہماری چبھن کا یقین ہے شاید
ہماری نذر ہمیشہ ہی پھول کرتا ہے
ترے وجود پہ یہ چیز ہی نہیں سجتی
اداس ہو کے ہمیں بھی ملول کرتا ہے
زبان ہی تو بناتی ہے پھول کانٹوں کو
ہمارا لہجہ ہی لفظوں کو شول کرتا ہے
گزر گیا جو کبھی لوٹ کر نہیں آیا
گئے دنوں کا تجسس فضول کرتا ہے
رئیسؔ دل کے اشاروں پہ مت چلا کرنا
یہ شاہزادہ ضدیں بے اصول کرتا ہے