پروفیسر آفاق صدیقی (کراچی)
کسی خیال کی صورت کسی گماں کی طرح
رواں دواں ہیں مگر گرد کارواں کی طرح
اس آرزو پہ جو پیاری تھی اپنی جاں کی طرح
ہوئی ہے یورشِ غم مرگِ ناگہاں کی طرح
نہ راس آئی ہمیں وصلِ گل کی رعنائی
بہار میں بھی رہے موسمِ خزاں کی طرح
یہ کیا خبر تھی کہ اس روپ میں بھی ہیں صیاد
نظر تو آئے تھے کچھ لوگ باغباں کی طرح
وفورِشوق میں سجدوں سے بے نیاز ہوئی
مری جبیں بھی ترے سنگِ آستاں کی طرح
گلا نہیں جو ابھی ہمیں ہم سفر ہیں خوابیدہ
مجھے تو رہنا ہے بیدار پاسباں کی طرح
اسیر فکر و نظر ہے ہر آدمی آفاقؔ
کوئی زمیں کی طرح کوئی آسماں کی طرح