تاجدار عادل
حادثہ روز نیا واقعہ تھا روز وہی
زخم ہر لمحہ نئے ، درد ملا روز وہی
وہی اک وصل کی خواہش کیلئے ہجر کی شام
وحشتِ جاں کے لئے حرفِ دعا روز وہی
ہر نئے روز نئی طرح سے زندہ رہنا
وحشتیں روز وہی ، درد و دوا روز وہی
وہی ہر شام سمندر کے کنارے تنہا
اور سنّا ٹے میں پانی کی صدا روز وہی
روز جلنے کے لئے بجھتا رہا ایک دیا
اور اک سمت سے آتی تھی ہوا روز وہی
آنکھ سے خواب تلک ہے وہی غم کا رستہ
کوششیں روز وہی قافلہ تھا روز وہی
دشت ہے آگ کا اور ہے وہی رستہ عادلؔ
باغ میں یاد کے ہے پھول نیا روز وہی