تاجدار عادل(کراچی)
جو مِرے ہونٹوں پہ آئی وہ صدا اس کی بھی ہے
یوں تو سب میں نے کہا لیکن دعا اس کی بھی ہے
کچھ گماں اس کے بھی دل میں کچھ یقیں میرے بھی ہیں
عشق کی دولت ہے میری اور وفا اس کی بھی ہے
کون کس کو جذب کرتا ہے وفا کے کھیل میں
میرا بھی پندار ہے،جھوٹی انا اس کی بھی ہے
ہمرہی کے شوق میں کیا دور کی منزل بھلا
راستہ جو بھی چُنے گا انتہا اس کی بھی ہے
ہجر کی تلوار میں ہاں کاٹ گہری ہے مگر
غم فقط میرا نہیں ہے یہ سزا اس کی بھی ہے
جرأتیں بھی چاہئیں خود سے بچھڑنے کے لیے
فیصلہ میرا سہی لیکن خطا اس کی بھی ہے
اپنی حالت دیکھ تو عادلؔ ذرا اور سو چ تو
یہ تری قسمت سہی پر بد دعا اس کی بھی ہے