کاوش پرتاپ گڈھی
آنکھ میں دھند تھی جوانی میں
کیا نظر آتا عکس پانی میں
کتنے روشن ، لطیف ہیں الفاظ
کیفیت کیوں نہیں معانی میں
خاص کردار سو گیا شاید
ہے کہاں لطف اب کہانی میں
زلزلہ شہر میں نہ کیوں آتا
کوئی تصویر تھی روانی میں
حوصلہ افزا اپنی کچھ یادیں
دے گیا وہ ہمیں نشانی میں
کیا بتاؤں عجب نظارہ تھا
جب گرا چاند چھپ سے پانی میں
رائیگاں کب گیا لہو میرا
نفع دیکھا ہے رائیگانی میں
مصرعہ اولیٰ ہے آسماں روشن
اور قیامت کا شور ثانی میں
چاند سے ہم لپٹ کے سوئیں گے
عمر گزری ہے خوش گمانی میں
کوئی کچھ بھی کہے مگر کاوشؔ
باطنی سکھ ہے حق بیانی میں