صبا اکبرآبادی
غم خانہء صبا میں جو آتی ہے چاندنی
تاریکیوں کے ناز اُٹھاتی ہے چاندنی
سیرِ جہاں کا لطف اُٹھاتی ہے چاندنی
دنیا کے رنگ دیکھتی جاتی ہے چاندنی
جلووں کی تیرییاد دلاتی ہے چاندنی
راتوں کی نیند اور اُڑاتی ہے چاندنی
ہو آشنا نگاہ جو انوارِ حسن سے
جلوے اُبھارتی چلی جاتی ہے چاندنی
وہ پاس ہوں تو قید شبِ ماہ کی نہیں
راتوں کی تیرگی نظر آتی ہے چاندنی
وہ رات ا شکِ غم کی جوانی کی رات ہے
جس رات کو شباب پہ آتی ہے چاندنی
مخصوص ہے ہماری امیدوں کے واسطے
وہ سرد آگ جس سے جلاتی ہے چاندنی
منجدھار میں ہے کس کا سفینہ کہ خوف سے
لہروں کے ساتھ کانپتی جاتی ہے چاندنی
جن کی لحد پہ کوئی جلاتا نہ ہو چراغ
اُن بیکسوں کے کام میں آتی ہے چاندنی
پر تو نہ ہو یہ داغِ اسیری کا اے صبا
دیوارِ باغ پر نظر آتی ہے چاندنی