صبا اکبر آبادی
اک روز ہم بھی دیکھ لیں اب تک سُنا تو ہے
ہر کم نظر یہ کہتا ہے پردہ اٹھا تو ہے
دیکھیں زبان کٹتی ہے یا دار پر چڑھیں
ہم نے تڑپ کے نام کسی کا لیا تو ہے
لب تک دعا کے لفظ نہ آئے تو کیا ہوا
پر و ر د گا ر لرزشِ دستِ دعا تو ہے
ساحل کو یاد کر کے تڑپنے سے فائدہ
جب یہ سمجھ لیا ہے کہ اب ڈوبنا تو ہے
اچھا ہوا کہ سب در و دیوار گر پڑے
اب روشنی تو ہے مرے گھر میں ہوا تو ہے
اب میرے بعد راہ نہ بھولیں گے قافلے
منزل پہ میں نہیں ہوں مرا نقشِ پا تو ہے
دیوانگی کو اپنی دعائیں دو اے صبا
اِ س شہر میں تمہیں کوئی پہچانتا تو ہے