ڈاکٹر عقیلہ شاہین(بھاولپور)
قافلۂ حیات کا یہ سفر ہزاروں سال سے جاری ہے۔ زندگی کا یہ کارواں جب بھی کسِی ’’بانگِ درا‘‘ کی سُریلی آواز پر اگلی منزل کی طرف کوچ کرتا ہے تو اِس کے سازو سامان میں نئے مشاہدات ، تجربات اور نئی تخلیقات کے علاوہ بہت سی پُرانی چیزیں بھی ہوتی ہیں۔ جو ہماری اِنفرادی و اجتماعی پہچان ، تاریخی و تہذیبی تشخص کا باعث بنتی ہیں۔ اِسی تناظر میں دریائے سرسوتی، گھاگھرا، ہاکڑا، پتن منارا، قلعہ عباس، قلعہ دراوڑ، بی بی جیوندی اور خو اجہ غلام فرید کی روہی کو سینے پہ سجائے ریاست بہاول پور ،جس نے اپنے تہذیبی ، ثقافتی، علمی ، ادبی اور رُوحانی فیض سے ’’پیلو چُننے‘‘ کو بھی تکمیل عرفان بنادیا۔ اِس سرزمین کا ذرّہ ذرّہ آفتاب ہے اِس لیے کہ یہاں خواجہ محکم الدین سیرانی، مخدوم جہانیاں جہاں گشت، حضرت لال شاہ بخاری، خواجہ نور محمد مہاروی اور حضرت ملوک شاہ جیسے بزرگوں کے قدموں کے نشان ثبت ہیں ۔ ریاست بہاول پور جس کا قیام ۱۷۲۷ء میں عمل میں آیا ۔ اِس کے پہلے فرمانروا نواب صادق محمد خاں ، جو خلفائے عباسی کی اولاد میں سے تھے اُنہوں نے اپنی دانش مندی، فہم وفراست، اور تدبر و تفکّرسے ریاست کی بنیادیں مستحکم کیں۔ ۱۷۲۷ء سے ۱۹۵۵ء تک قائم رہنے والی خود مختار ریاست بہاول پور نے امیر محمد بہاول خاں، محمد مبارک خاں، امیر محمد بہاول خاں ثالث، نواب محمد صادق خاں رابع، نواب محمد بہاول خاں خامس اور نواب محمد صادق خاں خامس جیسے حکمرانوں کا سنہری دور دیکھا۔ شہر بہاول پور کی بنیاد نواب بہاول خاں نے ۱۸۴۸ء میں حضرت ملوک شاہ کی دُعا سے رکھی۔ صاحبِ حال کی دُعا کو شرفِ قبولیت ملا۔ یوں خود آگہی اور علم و عرفان کے چشمے پھوٹ پڑے۔ سکوت نے کلام کیا۔ قطرہ سمندر اور ذرّہ صحرا بن گیا۔ صوفیاء، بزرگوں اور بابوں کے فیضان سے ریاست بہاول پور ابتدا ہی سے مذہبی، تہذیبی اور علمی ، ادبی روایات و اقدار کا مرکز رہی۔ اگرچہ اُردو بولنے اور سمجھنے کا آغاز ریاست کے قیام کے ساتھ ہی ہوچکا تھا لیکن ابتدا میں جو تصانیف سامنے آئیں وہ زیادہ تر عربی و فارسی میں تھیں۔ چنانچہ نور الدین بن محمد عوفی کی ’’لباب الباب‘‘، جوامع الحکایات و لوامع الروایات‘‘، علی بن جامد کا ’’چچ نامہ‘‘ ،منہاج سراج کی ’’طبقاتِ ناصری‘‘، خواجہ امام بخش کی ’’گلشنِ ابرار‘‘ ،محکم الدین سیرانی کی ’’تلقینِ لدنی‘‘ ،خواجہ خدا بخش خیر پوری کی ’’توفیقیہ‘‘،’’ذوقیہ ‘‘اور’’ توحیدیہ‘‘جیسی عالمانہ کتب کو تصوّف کے مختلف اسرار ورموز سے متعلق تھیں۔۱۸۵۰ء میں شائع ہونے والی منشی دولت رام کی ’’مراۃِ دولتِ عباسیہ‘‘ بہاول پور کی پہلے تاریخ ہے۔ یہ تاریخ بہاول خاں ثانی (۱۷۷۲ء تا۱۸۰۹ء) کے عہد میں لکھی گئی اِس میں خلافتِ عباسیہ اور نواب بہاول خاں کی عہد تک والیانِ ریاست بہاول پور کا تذکرہ ملتا ہے۔
اُردو اور ریاست بہاول پور کا ساتھ بہت پرا نا ہے۔ علم و حکمت، زبان و ادب اور اُردو سے محبت کے حوالے سے ریاست بہاول پور کو یہ امتیاز و افتخار بھی حاصل ہے کہ ۱۷۴۹ء میں اِسے دفتری زبان کی حیثیت سے رائج کیا گیا اِس سے قبل اُردو کو صرف حیدر آباد دکن میں ہی یہ اعزاز حاصل تھا۔ چنانچہ ریاست کے فرمانروا ؤں نے اُردو کی نشوونما، اشاعت و ترویج کی طرف خاص طورپر توجہ کی۔
تحقیق ، حقیقت کی دریافت کا عمل ہے۔ یہ نامعلوم سے معلوم کے سفر کی نہ ختم ہونے والی کہانی ہے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق ریاست بہاول پور میں اُردو میں لکھی جانے والی پہلی کتاب سید مراد شاہ کی ’’تاریخِ مراد‘‘ ہے۔ سید مراد شاہ ۱۸۶۲ء سے ۱۸۷۶ء تک چیف جج کے عہدے پر فائز رہے۔ چار جلدوں پر مشتمل یہ تاریخ چھپ نہ سکی اِس لیے حتمی طورپر یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کب لکھی گئی۔ گمان یہی ہے کہ یہ ۱۸۶۲ء سے ۱۸۷۶ء کے درمیانی عرصے میں لکھی گئی۔ ’’تاریخِ مراد‘‘ کے بعد مولوی عبدالعزیز کی ’’مخزنِ سلیمانی ‘‘مطبوعہ اپریل ۱۸۵۱ء اور شہزادہ مرزا اختر کی ’’مناقبِ فریدی‘‘ جو ریاست بہاول پور کی مختصر تاریخ،حضرت خواجہ غلام فرید کی سوانح اور مناقب پر مشتمل اہم ترین تصانیف ہیں۔
اِس علمی و ادبی پس منظر میں ایک اہم نام مرزا محمد اشرف گورگانی کا ہے جنہیں اگر ریاست بہاول پور کا پہلا باقاعدہ نثر نگار قرار دیا جائے تو یہ بات غلط نہ ہوگی۔ مرزا محمد اشرف گورگانی (۱۸۶۵ء تا۱۹۲۲ء،سالِ وفات میں اختلاف پایا جاتا ہے) کا سلسلۂ نسب آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر سے جا ملتا ہے چنانچہ مرزا اشرف کے دادا مرزا عنایت اشرف (مرزا عنایت اشرف انگریز کی طرف سے پھانسی پر لٹکائے گئے) اور والد مرزا محمود اشرف اُس کارواں میں شامل تھے جنہوں نے انگریزوں کے ظلم و ستم کے باوجود جہاد جاری رکھا۔ عزیزوں کی سر بُریدہ لاشیں دیکھیں جب دائرۂ حیات اتنا تنگ ہوا کہ سانس لینا بھی مشکل نظر آنے لگا تو ہجرت کرکے بہاول پور آگئے۔ مرزا محمد اشرف گورگانی نے تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد ۱۸۹۳ء میں ایس۔ ای کالج میں درس وتدریس کا آغاز کیا۔ اِس سے قبل وہ ۱۸۸۳ء میں بہاول پور میں قائم ہونے والے پہلے پریس صادق الانوار پریس میں مترجم کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ دربارِ بہاول پور سے بھی منسلک رہے اور اہل زبان ہونے کی وجہ سے سَر صادق خاں پنجم کے خاص اتالیق تھے۔
مرزا محمد اشرف گورگانی کا پہلا تخلیقی ذریعۂ اظہار شعر تھا۔ شاعری اُن کی روح کی آواز تھی۔ یہاں اُن کی شاعرانہ صلاحیتوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اہم اُنہیں بطور نثر نگار ہی دیکھیں گے۔ اُن کی نثری تصانیف ’’صادق التواریخ‘‘ ،’’بن باسی رستم‘‘،’’شاما شامی‘‘ شامل ہیں۔ اِن باقاعدہ تصانیف کے علاوہ ’’گاڑھا‘‘،’’ اُردو کرسٹان ہوگئی‘‘، ’’خطبہ برائے گریجوایٹس ‘‘کے عنوان سے مضامین اور ایک اَدُھوررا ڈراما ’’قیس و فرہاد‘‘ بھی ملتا ہے۔ ماجد قریشی نے اُن کی اُردو خدمات کا اعتراف اِن لفظوں میں کیا ہے:۔
’’مرزا اشرف گورگانی نے بہاول پور میں اُردو مذاقِ سخن کو فروغ دینے میں بہت بڑا حصہ لیا۔ آپ نے اُس زمانے میں اہل بہاول پور کو اُردو سے روشناس کرایا جب کہ اُردو زبان اِس سنگلاخ زمین پر ابتدائی مراحل سے گزر رہی تھی۔تعلیمی درس گاہوں میں اُردو کو رائج کرنے اور ریاست کے قریہ قریہ میں اِس زبان کو عام کرنے میں آپ کی خدمات قابل قدر ہیں۔ سابق ریاست بہاول پور کے ڈاک بنگلوں اور سَرکاری اقامت گاہوں میں آپ کے تحریری نقوش اکثر رجسٹروں میں ثبت تھے۔‘‘ ۱
مرزا محمد اشرف گورگانی کے نثری کارناموں میں ’’صادق التواریخ‘‘ سرِ فہرست ہے جو ۱۸۹۹ء(۱۳۱۷ھ) میں منظر عام پر آئی۔ یہ مرزامحمد اشرف اور مولوی محمد دین دونوں کی مشترکہ ادبی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اُن دِنوں یہ دونوں حضرات ایس ۔ ای کالج بہاول پور میں تاریخ اور انگریزی، فلسفہ اور انگریزی پڑھاتے تھے۔ ’’صادق التواریخ‘‘ کا پہلا حِصّہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے لے کر پچاس فرما نروائے عباسیہ ابو احمد عبداللہ المستعصم باللہ خلیفہ سی و ہفتم تک ، دوسرا حِصّہ امیر سلطان احمد ثانی سے لے کر نواب رحیم یارخاں عرف نواب خاں صاحب رابع نواب نہم پر محیط ہے۔ گویا یہ خلفائے عباسیہ کی ۶۱۸ء سے ۱۸۶۶ء تک کی تاریخ ہے۔ ’’صادق التواریخ‘‘ کا جواز کتاب کے شروع میں ’’ایک اعلان‘‘ کے تحت عطااللہ سپرنٹنڈنٹ مطبع صادق الانوار نے یوں پیش کیا ہے:۔
’’کتاب ہذا حسب الحکم حضور سرکار نامدار حضرت نواب صادق محمد خان صاحب بہادر عباسی علیہ الرحمتہ والغفران، تالیف و تصنیف ہوئی۔ مصنفین صاحبوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے اِس کے مطالب مستند کتب تواریخ، انگریزی، فارسی و اُردو تواریخ ریاست بہاول پور سے اخذ کرکے لکھے۔ اور اِس کی صحت کا التزام بھی خود کیا۔‘‘ ۲
’‘صادق التواریخ‘‘ کی سب سے بڑی خوبی اِس کا ایجاز و اختصار ہے۔ ریاست بہاول پور کے حکمران جن کا سلسلۂ نسب بغداد کے خلفائے عباسیہ سے ملتا ہے۔ تاتاری فتنے کے بعد مصر اور پھر ہندوستان میں آباد ہوئے ۔ ریاست بہاول پور کا قیام اور مختلف فرمانرواؤں کا عہد، اُس عہد میں ہونے والی سیاسی، سماجی ، تہذیبی اور فلاحی کارناموں کی روداد مختصر مگر جامع انداز میں، اِس تاریخ میں ملتی ہے۔ مصنفین نے ہر حکمران کے عہد پر تفصیلی روشنی ڈالنے سے پہلے ابتدا ہی میں ہر فرمانروا کا زمانہ، عرصہ عہدِ حکومت، عہدِ حکومت میں ہونے والے اہم واقعات، اشارات کی صورت میں پیش کر دیئے ہیں۔ اِس سے قاری کو مطالعے میں بہت سہولت رہتی ہے۔ مثال کے طورپر :۔
نواب بہاول خاں اوّل
نواب دویم
تاریخِ جلوس : یکم ربیع الثانی ۱۱۵۹ھ مطابق ۱۷۴۶ء
تاریخِ وفات:۷۔رجب المرجب۔۱۱۶۳ھ مطابق ۱۷۴۹ء
عرصۂ حکومت:۳۔ سال
فہرست واقعات :
۱۔ راول راوی سنگہ قلعہ ڈیراور پر قابض ہوگیا۔
۲۔دیوان کو رامل و نواب حیات اللہ خاں صوبہ دار ملتان کی لڑائی۔
۳۔صاحبزادہ مبارک خان کی بغاوت۔
۴۔آبادی دیہات جدیدہ ‘‘ ۳
ایک اور مثال دیکھیے:
نواب محمد مبارک خاں
نواب سوم
تاریخِ جلوس:۷۔رجب المرجب ۱۱۶۴ھ مطابق ۱۷۴۹ء
تاریخِ وفات:۳۔ ربیع الاول ۱۱۸۶ھ مطابق ۱۷۷۲ء
عرصہ حکومت:۲۴۔ سال
فہرست واقعات:
۱۔تسخیر قلعہ جات و اراضی متفرقہ
۲۔وفات میاں نور محمد کلہوڑہ
۳۔آبادی قصبات جدید واحداث نالہ ہا
۴۔تعمیر قلعہ جات
۵۔والیان سندھ سے تعلقات
۶۔واقعات متفرقہ
۷۔وفات نواب مبارک خان‘‘ ۴
یہ انداز پوری کتاب میں موجود ہے۔ یوں صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ زبانی تسلسل کو حقیقی معنویت کے ساتھ یوں جوڑ دیتی ہے کہ ایک ہی نظر میں آگہی کے سارے دِیئے جل اُٹھتے ہیں۔ بہاول پور کی آباد کاری کا تذکرہ یوں ملتا ہے:۔
۱۱۶۲ھ مطابق ۱۷۴۸ء نواب بہاول خاں نے دریائے گہارا سے تین میل کے فاصلے پر ایک شہر پناہ خام تیار کراکے اِس میں لوگ لا بسائے۔ اِس کا نام نامی یر بہاول پور رکھا اور اِس کو اپنا دارالریاست قرار دیا۔ چنانچہ اُس زمانہ سے مقبوضات خوانیں داؤد پرترہ ریاست بہاول پور کے نام سے موسوم ہوئی۔‘‘ ۵
تاریخ ماضی کی کہانی اور صدیوں پرانی تہذیب کی بازیافت کا عمل ہے۔ یہ کئی زمانوں کی داستان ہے۔ یہ ہمارے وہ گم شدہ اوراق ہیں جنہیں مؤرخ لفظ لفظ سمیٹتا ہے۔ کامیاب مؤرخ ہمیں ماضی میں لے جاکر اُن مناظر کا حِصّہ بناتا ہے جو کبھی جیتی جاگتی حقیقتیں تھیں۔
’’صادق التواریخ‘‘ میں تاریخ کے حقائق ٹھوس شہادتوں کے ساتھ ساتھ ، یہ سحر آفریں روّیہ بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر المقتدر باللہ بن المعتضد باللہ خلیفہ یژدہم (۲۹۵ھ تا ۳۲۰ھ) کے عہد کا ایک منظر دیکھیے:۔
’’ڈیوڑ ھیول پرسات سو دربان تھے۔ دریائے دجلہ پر سینکروں کشتیاں مخملی اور کارچوبی شامیانوں سے آراستہ تیرتی نظر آتی تھیں۔ محلّات میں اَڑتیس ہزار پردے ریشمی و کار چوبی لٹکے ہوئے تھے۔ ایک سو شیر دولت خانہ کے عجائب گھر میں تھے۔ اور ہر شیر کا ایک خدمت گار تھا۔ منجملہ اور اشیائے عجیب و غریب کے ایک درخت سونے ، چاندی کا بنا ہوا تھا۔ جس کی اٹھارہ شاخیں تھیں ہر شاخ میں بہت سی ٹہنیاں تھیں ہر ٹہنی پر طلائی پتے لگے ہوئے تھے۔ اور سونے، چاندی کے مختلف شکلوں کے جواہر نگار پرندے بیٹھے تھے۔ یہ پرنداِس خوبی سے بنائے گئے تھے کہ جب ہَوا چلتی تھی اندر سے اِس کی کلی پھیری جاتی تھی تو ہر پرند اپنی قسم کی اصلی آواز سے نغمہ سرائی کرتا تھا۔ ظاہر ہے کہ جس خلیفہ کے دربارکا یہ رنگ ہو وہاں رعایا پر سوائے عیش پرستی کے اور کیا اثر پڑے گا۔‘‘ ۶
اِس اقتباس کا آخری جملہ وہ منطقی نتیجہ ہے جو مصنف نے بطور مؤرخ اپنے تاثر کے طورپر، تاریخی حالات و واقعات کی روشنی میں پیش کیا ہے۔اور یہی اُس کے سچے مؤرخ ہونے کی دلیل ہے۔ لیکن اِس سچے مؤرخ کی سب سے بڑی تاریخی لغزش یہ نظر آتی ہے کہ ’’صادق التواریخ‘‘ ۱۸۹۹ء میں نواب صادق محمد خاں خامس کے دور میں لکھی گئی۔ مصنفین نے اپنا بیان نواب بہاول خاں رابع کی وفات یعنی ۲۵مارچ ۱۸۶۶ء پر ختم کردیا اِس طرح بعد کی تینتیس سال کی تاریخ ہمیں نہیں ملتی۔ جس سے تشنگی کا اِحساس بڑھتاہے۔ زبان و اُسلوب کی خوبیوں نے اِس اِحساس کو کچھ حد تک کم کردیاہے۔ محمد اشرف گورگانی اور مولوی محمد دین شاعرانہ طبیعت رکھتے تھے۔ اِس تاثر کے علاوہ اشرف گورگانی نے سلاست وسادگی، دلّی کے محاورے اور ٹکسالی زبان کو تاریخی آہنگ کے ساتھ یوں پیش کیا کہ پڑھنے والے کی دلچسپی دو چند ہوجاتی ہے۔ یہ خصوصیت فرمانروائے بہاول پور کے حالات میں زیادہ نمایاں ہے۔ مثال کے طور پر نواب بہاول خاں رابع کے بیان کو دیکھیے:۔
’’شب دوشنبہ ۷ماہ ذیقعد ۱۲۸۲ھ مطابق ۲۵۔ مارچ ۱۸۶۶ء کو نواب صاحب آدھی رات تک بالکل تندرست تھے۔ چنانچہ اُس وقت تک مختلف مضامین پر گفتگو ہوتی رہی۔ اِس کے بعد حرم سرا میں گئے۔ اور ابھی تھوڑی رات باقی تھی کہ نوحہ و گریہ کی آواز سنائی دی۔ اور معلوم ہُوا کہ نواب صاحب نے انتقال فرمایا۔ ڈیرہ و احمدپور میں سب سب طرف ایک سناٹا کا عالم ہوگیا۔ نواب صاحب کی عمر صرف ۲۹سال تھی اور ایامِ حکومت سات سال آٹھ ماہ تھے۔‘‘ ۷
مرزا محمد اشرف گورگانی کی دوسری اہم تصنیف’’بن باسی رستم‘‘ ہے۔ کتاب کے ٹائیٹل پہ سالِ اشاعت ۱۹۳۸ء درج ہے۔ سانپ اور نیولے کی لڑائی کی یہ کہانی مشہور انگریز مصنف رڈیارڈ کپلنگ کی ’’جنگ بک‘‘ سے متاثر ہوکر سید ممتاز علی نے لکھوائی۔ سید ممتاز علی کو اشرف گورگانی کی زبان کا بے ساختہ پن، سلاست ، دلّی کی ٹکسالی زبان و محاورہ ، نسوانی لب ولہجہ اور خاص طور پر زبان کی شگفتگی و شادابی بہت پسند تھی اور اُس پر مکمل اعتماد بھی تھا۔ اِس لیے اُن کا خیال تھا کہ اشرف گورگانی سے بہتر کوئی اور ایسی کہانی نہیں لکھ سکتا۔ اپنے مقصد کی مزید وضاحت یوں کرتے ہیں:۔
’’میرا اِس کتاب کے لکھانے سے سوائے اِس کے کوئی اور مقصد نہیں کہ ہماری قوم میں پاکیزہ مذاق کا دلچسپ عمل ادب پیدا ہو اِس میں کہیں کہیں کوئی بات نصیحت کی نکل آئی ہے وہ روکن میں آئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مختصر سا قصّہ پڑھنے والوں کے دِلوں پر کچھ نہ کچھ اثر کیے بغیر نہیں رہے گا۔ بچے پڑھیں گے اور سنیں گے۔ ہوشیار پڑھیں گے اور مسکرائیں گے۔ فلسفیوں سے ڈر لگتا ہے وہ پڑھیں گے اور ناک بھوں چڑھائیں گے۔‘‘ ۸
حقیقت یہ ہے کہ کہانی جس دلچسپ انداز اور منفرد طرزِ بیان میں پیش کی گئی ہے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ فلسفی بھی اِس سے محظوظ ہوں گے۔اِس کی شہرت اور مقبولیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک طویل عرصے تک تعلیمی اداروں کے نصاب کا حصہ رہی۔ خود ہم نے اِسے پر ائمری سطح پر اُردو کی کتاب میں پڑھا ہے۔ سانپ اور نیولے کی اِس کہانی کے پس منظر میں خان صاحب اُن کی بیگم ، بیٹا سعید انسانی کردار ، کوّا، اُلوّ،ابابیل، مینا، چھچھوندر اور شکرخورہ کے کردار موجود ہیں۔ پرندوں اور جانوروں کی گفتگو انسان کے لیے سبق آموز ہے۔ کہانی اتنی دلچسپ ہے کہ اِسے ختم کیے بِنا چین نہیں پڑتا۔گویا اشرف گورگانی داستان اور کہانی کے فن اورتکنیک سے پورے طور پر آگاہ ہیں۔ کہانی کی ابتدا میں خان صاحب کا گھر، پانی کے نَل کا پھٹ جانا، نیولے کے بِل کی تباہی، اُس کا انسانوں میں رہنا، شکر خورے اور اُس کے بچوں کو کالے سانپ سے تحفظ دینا، کوا، اُلوّ، مینا اور ابابیل کی انسانوں کے حوالے سے دلچسپ گفتگو اور آخر میں پرندوں اور جانوروں کا دلچسپ مشاعرہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اشرف گورگانی فطری طورپر ہُنرمند تخلیق کار ہیں۔ کہانی کے ذریعے فنی و تخلیقی مہارت سے نصیحت کرنے کا انداز قابلِ داد ہے۔ مثال کے طورپر آزادی کی نعمت کا تذکرہ کہ وہ دور انگریز کے ظلم و ستم اور جبرو استبداد کا دور تھا۔ آزادی کی خواہش اِس زمین پر بسنے والے ہر انسان کے دِل میں موجود تھی۔ چنانچہ کوّا اِس کی اہمیت کا اِحساس یوں دلاتا ہے:۔
’’اِن کے یہاں ہر طرح کی قیدیں اور پابندیاں ہیں۔ باورچی خانہ نہ جاؤ۔ آٹے کے کونڈے میں چونچ نہ ڈالو۔ٹھیلیا کی چپنی پھینک کر پانی نہ پیو۔ دیوار پر بیٹھ کر نہ بولو۔ کون اتنی سختیاں اُٹھائے۔ آزادی سے بہتر دنیا میں کوئی چیز نہیں۔ جہاں جی چاہا چلے گئے۔ نیا دانہ نیا پانی آج پورب کو چلے گئے تو کل پچھم کو۔ روز نوروزی نو۔‘‘ ۹
اِس اقتباس میں بظاہر کوّے کے مسائل اور مشکلات بیان کی گئی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اُس دور کے غلام معاشرہ اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے انسانوں کی تصویر ہے۔ اِس تمثیلی اور علّامتی انداز کو ہم یوں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ باغ سے مراد وطنِ عزیز یا غلام ہندوستان ہے۔ مختلف پرندے مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے لوگ کالا سانپ انگریز سامراج اور نیولہ آزادی کے متوالوں اور مظلوموں کی مدد کرنے والے حریت پسند ، شکر خورہ جو کالے سانپ کے ظلم و ستم کا شکار ، اُس دور کے عوام۔ نیولے کا ناگ اور ناگن کو مار ڈالنا اور آخر میں اظہارِ مسرت کے طور پر مشاعرہ کا انعقاد۔ یہ سب ماضی کی سیاسی صورتِ حال کی تصویر ہے۔ جانور اور پرندے جس خوبی سے انسان پر طنز وتنقید کرتے ہیں وہ لاجواب ہے۔مَینا کا انسان کی خود غرضی اور بے حسی پر اور نیولے کا یہ جملہ کہ ’’آدمیوں کی طرح وقت ضائع نہ کریں ۔‘‘ ۱۰ غور طلب ہے۔ کہانی میں یہ انداز شروع سے لے کر آخر تک موجود ہے۔ خوب صورت مناظر، مکالمہ اور خاص طورپر زبان و بیان کی بے ساختگی، برجستگی ، سلاست و فطری انداز ، منفرد محاورہ اَور اِن سب سے بڑھ کر دلّی کا نسوانی لب ولہجہ اور چاشنی اِس بات کی متقاضی ہے کہ کتاب شائع ہو اِس کی نئی اشاعت ادب میں ایک دلچسپ کہانی کا اضافہ کرے گی اور یہ اُسی طرح مقبول ہوگی جس طرح اپنے عہد میں تھی۔
’’شاما شامی‘‘ مرزا محمد اشرف گورگانی کی ایک اور اہم تصنیف ، جس کی اشاعت کے بارے میں کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں۔ اِس کہانی کا کچھ حِصّہ جو شائع ہُوا اور اشرف گورگانی کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسوّدہ دونوں پر تاریخ اور سَن درج نہیں۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ کہانی ۱۹۲۴ء کے بعد لکھی گئی۔ ’’شاما شامی‘‘ کہانی کی فیبل صورت ہے بظاہر ہر جانور اور پرندے اپنے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اُن کے نہیں انسانوں کے مسائل ہیں۔ کہانی کی ابتدا اشرف گورگانی نے اپنے منفرد اور مخصوص لب ولہجہ میں کی ہے:۔
’’پھاگن کا مہینہ تھا۔ سردی رخصت ہوچکی تھی،دھوپ کھل رہی تھی، درختوں پر شگوفے آچکے تھے۔ کچھ دن پہلے مینہ برس چکا تھا جس سے پتے نہادھوکر صاف ہو گئے تھے۔ گردو غبار دَب گیا تھا۔ غرض ایسے دن تھے کہ اگر بہت سی چڑیوں کی شادیاں قرار پاگئی ہوں تو کوئی تعجب نہ تھا۔ پرندوں کی شوالک اِسی مہینے میں ہوا کرتی ہے۔‘‘ ۱۱
کہانی کا باقاعدہ آغاز اور منظر کا اہتمام اِس بات کا اشارہ ہے کہ آگے اہم اور سنجیدہ مسائل بیان ہوں گے۔ ’’شاما شامی‘‘ بظاہر جانوروں اور پرندوں کی کہانی ہے لیکن اپنے علاّمتی انداز میں یہ انسان کو بے حسی، خود غرضی، بزدلی و کم ظرفی سے دُور رہنے اَور اتحاد و اتفاق اپنانے کا درس دیتی ہے۔ ’’شاما شامی‘‘ کی کہانی اپنے عہد کے سیاسی تناظر میں وطن پرستی کے رجحان کو اُبھارتی ، انگریز کے خلاف احتجاج اور آزادی کے حصول کی تڑپ پیدا کرتی ہے۔ مثال کے طورپر چنڈول اپنے بچوں کو جو پہلا سبق دیتا ہے وہ یہ کہ:۔
’’آزادی اور اتفاق سب سے بڑی نعمت ہے جتنے پرند اِس کھیت یا باغ میں آتے ہیں سب ہمارے ہم وطن ہیں اِن سے محبت کرنی چاہیے۔ اِن کو ماں جایا بھائی سمجھنا چاہیے۔ تمام لڑائیاں جھگڑے تو اِس محبت کے نہ ہونے سے ہوتے ہیں۔‘‘ ۱۲
آزادی کی تڑپ و تاثیر اور اِس کے حصول کی خواہش اُس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب اشرف گورگانی شدتِ جذبات سے مغلوب مینا، بلبل، اور توتا کی زبانی اشعار پیش کرتے ہیں۔ کہانی کے آخر میں جلیانوالہ باغ کا واقعہ اِس نصیحت کے ساتھ پیش کیا ہے کہ اگر ہندوستان کے لوگ اتفاق و اتحاد کی کڑی میں بندھے رہیں گے تو وہ دِن دور نہیں جب وہ آزاد وطن اور آزاد فضاؤں میں سانس لے سکیں گے۔ آزادی کی خاطر جان لڑا دینے اور حُریت پسندی کا سبق دینے والے مرزا اشرف گورگانی جن کے خُون میں اسلاف کی قربانیوں کا جوش تھا، اُنہوں نے عملی طورپر تو سیاست میں حِصّہ نہیں لیا لیکن ’’بن باسی رستم‘‘ اور ’’شاما شامی‘‘ اَپنے عہد کی سیاست کی بھرپور نمائندگی کرتی ہیں۔ پروفیسر مشتا ق احمد زاہدی ’’شاما شامی‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:۔
’’مرزا صاحب نے ہندوستان کی سیاسی کشمکش میں کوئی حِصّہ نہیں لیا تھا۔ ۱۹۔۱۹۱۸ء میں ہندوستان میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ جن سے کوئی صاحب متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ چنانچہ اِنہی حالات کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے کہ شاما شامی بچوں کے لیے ایک کہانی ہوتے ہوئے ہندوستان کے پولیٹیکل بچوں کی ایک کہانی ہوگی۔‘‘ ۱۳
’’شاما شامی‘‘ محفل بچوں کے دل بہلاوے اور بڑوں کی ذہنی و روحانی تفریح کے لیے نہیں لکھی گئی۔ اِس کے فلسفیانہ اور سنجیدہ مقاصد نہ صرف اِس کے خالق کی عمیق سوچ کا نتیجہ ہیں بلکہ ہر انسان کو اپنی فطرت اور کردار و اعمال کے حوالے سے تجزیہ کرنا سکھاتے ہیں۔ انسان کے اعمال و افعال کے پیش نظر توتا کاطنز بہت زہریلا اور کاٹ دار ہے۔ وہ کہتا ہے:۔
’’انسان کا اخلاس بہت گِرا ہوا ہے ہم اپنی فطرت ،اپنے رواج، اپنی برادری کے قاعدے کے خلاف دن رات گناہ میں مبتلا رہتا ہے…… چوری ، ڈاکہ، قتل ، حق تلفی اور خرابیاں جن کا نام لینے سے بھی زبان گندی ہوتی ہے کسِی جانور میں پائی جاتی ہیں؟…… یہ خرابیاں فطرت میں نہیں تھیں آدمی نے اِن کو ایجاد کیا اور آدمی اِن کو پال رہاہے۔ اگر انسان کی موجودہ نسّل ہر قسم کی بُرائی سے توبہ کرے تو خود انہی میں آئندہ ایک پاکیزہ نسّل پیدا ہوسکتی ہے۔ اور رفتہ رفتہ یہ برائیاں بالکل مفقود ہو سکتی ہیں۔‘‘ ۱۴
’’شاما شامی‘‘ کی کہانی ایک سنجیدہ بہانہ ہے۔ مرزا اشرف گورگانی نے اِس کہانی کے ذریعے انسانی معاشرے کے مختلف شعبوں کی اصلاح کا بیڑا اُٹھایا ۔ مذہبی، سیاسی، تہذیب، اخلاقی یہاں تک کہ وہ اِس نظریۂ فن کی بھی اصلاح کرتے ہیں جس کے تحت ادب اور خاص طورپر شاعری کو محفل دِل کی بھڑاس نکالنے اور ہجر و وصال کی جھوٹی اور فرضی کہانیاں کہا گیا۔ اُن کا مؤقف ہے کہ فنون لطیفہ ہماری سماجی و معاشرتی زندگی کی جاندار اور متحرک دستاویز ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:۔
’’ماناکہ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ سوسائٹی اخلاق سے گر گئی تھی۔ اِس لیے شاعری کا مذاق بھی گِر گیا تھا۔ جس وقت سے قومی جذبات کی بیداری ہوئی شاعری بھی جاگ گئی۔ کیا مسّدسِ حالی، بانگِ درا وغیرہ بہترین نظمیں نہیں ہیں۔ زندہ قوموں میں شاعری نے سیاست، مذہب کی ترجمانی کی ہے یہ اخلاق و حکمت کی اُستاد رہی ہے۔‘‘ ۱۵
اگرچہ ایسے بیانات سے کہانی کا ربط و تسلسل ٹوتا ہے اور اِس کی فنی و تخلیقی ہنر مندی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ پلاٹ میں جگہ جگہ جھول اور ڈھیلا پن پیدا ہوتاہے۔ گویا ’’شاماشامی‘‘ کی عضویاتی شیرازہ بندی ناقص اور کمزور ہے لیکن جب تخلیق کار کا نصب العین ہی مقصد و اصلاح ہو تو ہمیں اِن خامیوں کو نظر انداز کرنا ہوگا۔
’’صادق التواریخ‘‘ ، ’’بن باسی رتم‘‘ اور ’’شاما شامی ‘‘ کے علاوہ مرزا اشرف گورگانی کے مضامین ’’گاڑھا‘‘،’’ اُردو کرسٹان ہوگئی‘‘،’’ خطبہ برائے گریجوایٹس‘‘ اور ڈراما ’’قیس و فرہاد‘‘ اُن کے مخصوص نظریۂ فن کو پیش کرتے ہیں۔ مرزا اشرف گورگانی کو اِسلامی اقدار اور مشرقی تہذیب سے عشق تھا۔ وہ سیاسی، سماجی، تہذیبی اور مذہبی کسِی شعبہ میں بھی مغرب کی ملاوٹ کو پسند نہیں کرتے ۔ وہ اپنے معاشرہ کو سچا، کھرا اور ہر قسم کے تصنّع سے پاک دیکھنا چاہتے تھے۔ ’’گاڑھا‘‘ ،’’اُردو کرسٹان ہوگئی‘‘، ’’خطبہ برائے گریجوایٹس‘‘ میں انہوں نے یہی سبق دیا ہے ۔ اُردو اور خالص اُردو کے حوالے سے’’شاما شامی‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’اُردو میں بات کرو۔ خالص دہلی کی زبان میں۔ہم نے دوسرے ملکوں کی زبان کا بائیکاٹ کردیا ہے۔
تم نے بائیکاٹ کا لفظ کیوں استعمال کیا؟ اپنی زبان کے لفظ کیوں نہیں بولتے۔ ترک کیا، چھوڑ دیا ، استعمال بند وغیرہ وغیرہ۔‘‘ ۱۶
مرزا اشرف گورگانی کو قدیم ، ٹکسالی اور خالص اُردو کے ناپید و نایاب ہونے اور اُردو کا انگریزی میں مدغم ہونا بالکل نہیں بھاتا۔ وہ اُردو کو صرف اُردو دیکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:۔
’’غالبؔ و ذوقؔومومنؔ کی اُردو ادب خواب از یاب ہوگئی۔ شریف گھرانوں میں جو زبان بولی جاتی ہے وہ بھی مدارس میں ہے۔ فارسی و عربی کا چرچا کم ہونے لگا اور اُردو انگریزی الفاظ کی طغیانی سے مفقود ہوگئی۔‘‘ ۱۷
’’گاڑھا‘‘ اور ’’خطبہ برائے گریجوایٹس‘‘ میں بھی اُنہوں نے اپنے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو مغربی تعلیم و تہذیب کے منفی روّیوں سے بچنے، اسلامی اور مشرقی اقدار پر عمل کرنے اور خاص طور پر قرآن وسنت کے احکام پر چلنے کا درس دیا ہے۔
’’قیس و فرہاد‘‘ اشرف گورگانی کا نامکمل ڈراما ہے۔ اِس کے نامکمل ہونے کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ مرزا صاحب نے خود ہی اِسے اَدھورا چھوڑ دیا ہو دوسرے یہ کہ اُن کی اُس شاعری کے ساتھ جل گیا ہو جسے اُنہوں نے خود نذرِ آتش کیا تھا۔ بہر حال اِس کے بعد مختصر حِصّے میں موجود ڈرامائی صورتِ حال اور چُست مکالمہ نگاری اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ڈراما لکھنے کی بھی اعلیٰ صلاحیتیں رکھتے تھے۔ مرزا اشرف گورگانی اپنے عہد اور سابق ریاست بہاول پور کے پہلے اہم نثر نگار ہیں۔ اگرچہ نثر میں اُنہوں نے بہت زیادہ نہیں لکھا لیکن جو کچھ بھی لکھا وہ موضوع کے ساتھ ساتھ بیان کی ندرت و تازگی اور دلّی کی خالص زبان کی بِنا پر آج کے ادب کا حِصّہ معلوم ہوتاہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اُن کی تحریریں ادبی و تاریخی عجائب خانوں کے شوکیس میں میں موجود ہیں لیکن اِس خطّے کے ادب پر تحقیق کرنے والوں اور عام لوگوں کی نظروں سے اُوجھل ہیں۔چنانچہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِنہیں پھر سے شائع کیا جائے تاکہ اِہل دانش اِس عظیم فن کار سے آشنا ہوسکیں جو اِس اعتبار سے بھی بڑے تھے کہ اُن کا دِل اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے دھڑکتا تھا۔
حوالہ جات
۱۔ ماجد قریشی ’’دبستانِ بہاول پور ‘‘ ۔ص:۸ ۶
۲۔ محمد اشرف گورگانی ’’صادق التواریخ‘‘ ۔ ص:۲
۳۔ محمد اشرف گورگانی ’’صادق التواریخ‘‘۔ص:۱۵۵
۴۔ محمد اشرف گورگانی ’’صادق التواریخ‘‘۔ص:۱۶
۵۔ محمد اشرف گورگانی ’’صادق التواریخ‘‘۔ص:۱۵۷
۶۔ محمد اشرف گورگانی’’صادق التواریخ‘‘۔ص:۷۶۔۷۵
۷۔ محمد اشرف گورگانی’’صادق التواریخ‘‘۔ص:۲۴۴
۸۔محمد اشرف گورگانی’’بن باسی رستم‘‘۔ص:۸۔۹۔محمد اشرف گورگانی’’بن باسی رستم‘‘۔ص:۱۶
۱۰۔ محمداشرفگورگانی’’بن باسی رستم‘‘۔ص:۴۴
۱۱۔محمد اشرف گورگانی’’شاما شامی‘‘۔ص:۴۔۱۲۔محمد اشرف گورگانی’’شاما شامی‘‘۔ص:۵۱
۱۳۔محمد اشرف گورگانی’’شاما شامی‘‘۔ص:۱۵۔۱۴۔محمد اشرف گورگانی’’شاما شامی‘‘۔ص:۹۷
۱۵۔ محمد اشرف گورگانی’’شاما شامی‘‘۔ص:۶۳
۱۶۔ محمداشرف گورگانی’’شاما شامی‘‘۔ص:۸۷
۱۷۔ محمد اشرف گورگانی’’اُردو کرسٹان ہوگئی‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔