اسلم رسولپوری(رسولپور)
ڈاکٹر محمد علی صدیقی بلا شبہ اردو ادب کے ایک معروف نقاد ہیں اور ان کے تنقیدی مضامین کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں سے ایک کا نام” جہات“ ہے اور جس کو میں کئی بار پڑھ چکا ہوں اور کئی بار پڑھنے کا مقصد یہ ہے کہ میرے نزدیک اس تنقیدی مضامین کے مجموعے نے دور جدید میں یورپ کی طرف سے بھیجے گئے ادبی اور فلسفیانہ نظریات ،جنہوں نے ہمارے بہت سے اہل قلم کو نہ صرف دیوانہ بنا رکھا ہے بلکہ اس خبط میں ان کی زندگیاں بھی برباد ہو گئیں ہیں ،کا بھر پور تنقیدی جائزہ لے کر بہت سی غلط فہمیوں اور گمراہیوں کا سدباب کیا ہے ۔اور مجھے صحیح صورت حال کو سمجھنے میں مدد ملی ہے ،کیونکہ ان نئے نظریات میں بہت سے میرے لئے کشش کا باعث بھی تھے۔
کتاب کے کئی حصے ہیں ،پہلے حصے میں بہت سے نظریاتی مباحث ہیں جن میں مابعد جدیدیت اور نیا عالمی نظام ،مارکس اور موجودہ عالمی بحران :ایک تجزیہ ،ادب اور عصری تقاضے ،ادب اور جمہوریت، جدیدیت اور ہیئت کا وڈ یو گیم اور سائنسی رویہ اور جدیدیت کے وکلاءخصوصی طور پر قابل مطالعہ ہیں ۔سویت نظام کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد مغربی اہل قلم نے جو اودھم مچایا اور کنفیوژن پیدا کیا( اور جن کا جواب بہت سے ترقی پسند اہل قلم کو نہ سوجھ رہا تھا اور وہ ایک پریشانی کے عالم میں تھے )کا جواب جس حقیقت پسندانہ اور مدلل انداز میں ان مضامین میں دیا گیا ہے وہ یقینی طور پر بہت سی غلط فہمیوں کے ازالے کا نہ صرف سبب بنے ہیں بلکہ صورت حال کو نئے حالات میں بہتر طور پر سمجھنے میں مدد بھی دی ہے۔
سویت یونین کے خاتمے کے بعد نئی صورت حال میں مارکسزم کی اہمیت اور خصوصا مارکس کے ادبی ذوق کے حوالے ادب کے بارے اس کے نظریات کی بحث بڑی معلوماتی اور قابل قدر ہے،ادب اور ہم عصری تقاضے میں زبان کی بدلتی ہوئی صورت حال کا جائزہ بھی اپنی جگہ اہم ہے اور بدلتے ہوئے حالات میں حقیقی زبان کے مقابلے میں لسانیاتی تشکیل کا دھندا ایک مہم جوئی کے سوا کچھ نہ تھا ۔کے بارے میں بحث قابل مطالعہ ہے ۔
کتاب میں بہت سی شخصیات کا جرا تمندانہ تجزیہ بھی کیا گیا ہے اور ان کے بارے میں صحیح صورت حال کو ا جاگر کر کے ان کے فرضی طلسم کو توڑا گیا ہے ۔ان میں خصوصی طور پر جمال الدین افغانی بھی شامل ہیں ۔ان کی تمام کارکردگی ، حکمت عملی ،فکر اور سوچوں کا جائزہ لے کر یقینی طور پہلی دفعہ درست صورت حال کو قارئین کی نذر کیا گیا ہے۔ نیاز فتحپوری اور خرد افروزی کی روایت کے موضوع پر شاید پہلی دفعہ تفصیل کے ساتھ لکھا گیا ہے اور اس سلسلے میں ان کے contributionکا تعین بھی کیا گیا ہے ۔اس طرح سبط حسن پر ایک اچھا مضمون ہے جو اس خرد افروزی کی تحریک کے ایک روشن مینار تھے ۔اور جن کو مصنف ذاتی حوالے سے بھی جانتے تھے ۔احتشام حسین اور ہم عصری تناظر ایک تفصیلی اور بھر پور مضمون ہے ۔ترقی پسندانہ تنقید میں احتشام حسین کے کردار کے مصنف نے خود اس بات پر تفصیلی گرفت کی ہے کہ کس طرح مغرب کے ہیئت پرستانہ اور بے معنی نظریات نے ادب کی دنیا میں کتنا اودھم مچایا ہے۔کامیو کی بے معنو یت ،لسانی تشکیلات اور وجودیت کے اثرات کا بھی اس مضمون میں بڑا حقیقت پسندانہ اور فاضلانہ تجزیہ کیا گیا ہے۔
کتاب میں فکشن اور شاعری پر بھی حصے مخصوص ہیں اور ان میں معروف اہل قلم عصمت چغتائی اور مستنصر حسین تارڑ ، میر انیس ، بہادر شاہ ظفر ، اقبال ،راشد ، فراق ،علی سردار جعفری ، حبیب جالب ،پروین شاکر ،کیفی اعظمی ۔جون ایلیا ، کے ساتھ حسن عابد اور واحد بشیر پر بھی لکھا گیا ہے ۔مصنف نے ان تمام افسانہ نگاروں اور شاعروں کی تخلیقات کا ترقی پسندانہ نکتہءنظر سے جائزہ لیا ہے ۔اور بہت سے نئے گوشے بھی ان کی تخلیقات کے ہمارے سامنے آئے ہیں ۔ محمد علی صدیقی بلا شبہ ا دب کو خالص ادب کی بجائے اسے سماجی پس منظر کے ساتھ دیکھتے ہیں اور دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کی روشنی میں اسے پر کھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہاں میں یہ بات با لصراحت کہنا پسند کرتا ہوں کہ محمد علی صدیقی ترقی پسندی کو مذہب سمجھ کر نہیں برتتے بلکہ وہ اسے بہت تخلیقی انداز میں برتتے ہیں ۔اور اسی انداز میں مختلف تخلیقات کا تنقیدی جائزہ بھی لیتے ہیں ۔اور یہ بات ان کے اس مضمون سے بھی سمجھ آتی ہے جس میں انہوں نے مار کس کے ادبی نظریات کا ذکر کیا ہے ۔
محمد علی صدیقی کا مطالعہ بے پناہ ہے اور وہ جدید ترین ادبی ،فلسفیانہ اور معاشی نظریات سے واقفیت رکھنے کے علاوہ مشرق و مغرب میں ہونے والے تخلیقی اور تحقیقی کام سے بھی با خبر ہیں اور انہیں قدرت کی طرف سے یہ ادراک بھی ملا ہے کہ وہ کسی تخلیق کے تجزیے کے دوران اس کی اصلیت تک پہنچ سکیں اسلئے کوئی فتویٰٓ دیے بغیر میں سمجھتا ہوں کہ ان کی یہ کتاب بہت سے ادبی مسائل کو سمجھنے میں ممد و معاون ہو گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادب کا اپنا طریقِ کار اور اپنا مزاج ہے۔وہ کسی خارجی مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ بجائے خود ایک ایسا با مقصد عمل ہے جس سے زندگی کو آبِ حیات ملتا ہے۔مجھے اس ادب پر بھی کوئی اعتراض نہیں جس میں کوئی خاص نظریہ ابھر کر سامنے آئے۔میرا مطالبہ صرف یہ ہے کہ نظریہ ادیب کی ذات اور شخصیت کے راستے سے ادب میں داخل ہو،کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں۔بصورتِ دیگر ادب خود بول اٹھے گا کہ میں آیا نہیں،لایا گیا ہوں۔
(ادب اور اخلاقیات از ڈاکٹر وزیر آغا بحوالہ کتاب وزیر آغا کے تنقیدی مضامین ص۲۳۰)