تبصرہ نگار:حیدر قریشی
معراج نسیم(ہماری امی جان) مرتب: پروفیسر جاوداں میر
صفحات : 352 قیمت:کوئی نہیں
ناشر:دنیائے ادب،623 ۔6thفلور۔ریگل ٹریڈ اسکوائر۔ریگل چوک صدر۔کراچی74400
معراج نسیم ادبی حوالے سے اپنی نوعیت کی انوکھی کتاب ہے۔بظاہر یہ چند بچوں کا اور دوسرے افرادِ خاندان کا اپنی مرحومہ والدہ کے لئے محبت اور عقیدت کا اظہار ہے ،اس لحاظ سے یہ کوئی ادبی کتاب نہیں ہے۔لیکن جس خاتون کے بارے میں یہ کتاب ترتیب دی گئی ہے ،حمایت علی شاعر کی اہلیہ اور ابھرتے ہوئے افسانہ نگار بلند اقبال کی والدہ ہیں،اوج کمال کی والدہ ہیں۔یوں خاندانی نوعیت کی اس کتاب کی ادبی حیثیت بھی بنتی ہے۔
پروفیسر جاوداں میر حمایت علی شاعر کی صاحبزادی ہیں،یوں اپنی والدہ کے بارے میں کتاب مرتب کرنے کا اعزاز انہیں نصیب ہوا ہے۔کتاب کو ۶حصوں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے حصہ میں ابتدائیہ،معراج نسیم کی وفات کی خبروں کے تراشے،احباب کے تعزیت نامے اور یادگار تصاویر شامل کی گئی ہیں۔دوسرے حصہ میں قریبی عزیزوں کے تاثرات شامل کئے گئے ہیں۔ان میں بیٹے ،بیٹیاں،بہوئیں،داماد،دیور وغیرہ شامل ہیں۔یوں تو سب نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اور کسی کے جذبات کو دوسرے سے کم یا زیادہ کہنا مناسب نہیں کہ ماں تو سب بچوں کے لئے یکساں ہوتی ہے۔تاہم جب ادبی حوالے سے دیکھا جائے توڈاکٹر بلند اقبال کا مضمون ”یا بی بی سیدہ“باقی سب پر چھایا ہوا ہے۔اس کے بعد پروفیسر فروزاں علی میر اور پروفیسر جاوداں میر کے مضامین متاثر کرتے ہیں۔ڈاکٹر فروزاں علی کے بارے میں تو یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے اپنے اندر کی ایک بہت عمدہ نثر نگار کے ساتھ بہت نا انصافی کی ہے۔ابھی بھی وقت ہے کہ اپنی ادبی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔اوج کمال سے اس حصہ میں سب سے زیادہ توقع کی جا سکتی تھی لیکن ان کی تاثراتی تحریر انتہائی کمزور ثابت ہوئی۔
تیسرے حصہ میں دوست احباب اور ملنے جلنے والوں کے تاثرات شامل کئے گئے ہیں۔چوتھے حصہ میں پوتوں، نواسوں زعنی اگلی پیڑھی کے بچوں کے تاثرات درج کئے گئے ہیں۔پانچویں حصہ میں حمایت علی شاعر کی نظمیں ہیں ۔ان میں وہ نظمیں ہیں جو معراج نسیم کی وفات پر لکھی گئیں ۔ان نظموں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حمایت علی شاعر اپنی اہلیہ سے کس حد تک محبت کرتے تھے۔اسی حصہ میں حمایت علی شاعر کے وہ خطوط بھی شامل کئے گئے ہیں جو مختلف ادبی رسائل میں چھپ چکے ہیں اور جن میں انہوں نے اپنی اہلیہ کی وفات کا ذکر کیا ہے۔
کتاب کے آخری حصہ میں یہ خوشگوار انکشاف ہوتا ہے کہ معراج نسیم ایک زمانہ میں ادب سے وابستہ رہی تھیں
مہاراشٹر سے چھپنے والے اردو افسانے کے ایک ادبی تذکرہ میں ان کا تعارف اور منتخب افسانہ ملتا ہے۔معراج نسیم کچھ عرصہ کے لیے حیدرآباد دکن کے رسالہ ماہنامہ پرواز کی مدیرہ بھی رہیں۔اس آخری حصہ میں ان کے دو افسانے ”خالی میز“ اور ”ٹوٹتے جالے“بھی شامل کر دئیے گئے ہیں۔یوں ظاہر ہوا کہ معراج نسیم کے اندر اردو کی ایک اچھی ادیبہ موجود تھی لیکن اپنی گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے انہوں نے اس ادیبہ کی قربانی دے دی۔لیکن اس قربانی کے صلہ میں انہوں نے اپنے بچوں اور بچوں کے بچوں کو زندگی کا وہی قرینہ سکھا دیا جو ترقی پسند ادب یا صحت مند ادب والے ابھی تک دنیا کو نہیں سکھا پائے۔
موجودہ دور جس میں مادیت پرستی نفسا نفسی کی اس سطح تک آگئی ہے جہاںمعتبر اور مقدس رشتے بھی بے معنی ہوتے جا رہے ہیں ایسے ماحول میں حمایت علی شاعر اور معراج نسیم کی اولاد نے اپنے معتبر ترین رشتہ ماں کے رشتہ کی اس عظمت کا احساس دلایا ہے جسے نئی نسل عموی طور پر فراموش کرتی جا رہی ہے۔یہ کتاب بہت سے نیک فطرت لیکن بھولے ہوئے بچوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مٹھی بھر تقدیر (شاعری) شاعرہ: صبا حمید
صفحات: 120 قیمت:100 روپے
ناشر:انجم پبلشرز۔کمال آباد نمبر ۳۔راولپنڈی
آج کل شاعری میں جو نئے شعراءاور شاعرات آرہے ہیں ان میں سے اوریجنل لوگوں کو چھوڑ کر ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو سرے سے شاعر تو کیا متشاعر بھی نہیں ہیں۔خصوصاََ اِدھر مغربی ممالک میں تو اب یہ عالم ہے کہ کوئی بندہ ہو یا بندی ایک مصرعہ تک نہ کہنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے بھی راتوں رات صاحبِ کتاب بن جاتے ہیں۔پہلے پہل متشاعروں نے بے وزن شعری مجموعے طمطراق سے چھپوائے لیکن بعد میں انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑاتو ان کے انجام سے عبرت پکڑتے ہوئے شاعری کا شوق رکھنے والے غیر شاعروں نے شاعر بننے کا کامیاب نسخہ دریافت کر لیا ہے۔انڈیا اور پاکستان میں ایسے پُر گو اور استاد قسم کے شعراءکی کمی نہیں ہے جو معقول معاوضہ پر پورا مجموعہ لکھ دیتے ہیں۔سو ان کی برکت سے ایسے لوگ جو ایک مصرعہ بھی وزن میں نہیں لکھ سکتے ،پورے مجموعوں کے مالک بن گئے ہیں۔انڈیا یا پاکستان کا ایک سفر کیا جاتا ہے اور ایک مجموعہ تیار ہو جاتا ہے۔یوں مجموعوں پر مجموعے آرہے ہیں۔ادبی جعل سازی کے ایسے ماحول میں مجھے صبا حمید کا پہلا شعری مجموعہ دیکھنے کا موقعہ ملا تو میں نے اسے بے دلی سے دیکھنا شروع کیا۔پھر اس مجموعہ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ وہ ادب میں نووارد سہی ،لیکن ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کی شاعری ان کے باطن کی ترجمانی کر رہی ہے۔وہ جیسی بھی ہیں اوریجنل طور پر ہی سامنے آئی ہیں۔مجھے ان کے پہلے مجموعہ کلام سے ان کے ہاں اُن ممکنات کی خوشبو سی محسوس ہوئی ہے جو مستقبل میں ظہور پذیر ہوں گے۔بس اتنا ہے کہ صبا حمید کو شاعری کی ان اصناف پر زیادہ توجہ کرنا ہو گی جن میں انہیں زیادہ فطری لگاؤ محسوس ہو اور غیر ضروری طور پر ہر شعری صنف میں کچھ نہ کچھ کہنے سے احتیاط کرنا ہو گی۔خاور اعجاز نے ان کی شاعری کے حوالے سے جو تجزیہ کیا ہے وہ بے حد صائب ہے،مجھے اس سے مکمل اتفاق ہے۔میری دعا ہے کہ صبا حمید کا پہلا شعری مجموعہ ادبی طور پر مقبول ہو نہ ہو لیکن ان کے اُن شعری امکانات کو اجاگر کرنے کا باعث ضرور بنے جو اس مجموعے کے عقب سے اور شاعرہ صبا حمید کے باطن سے جھانکتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رُتیں(شاعری) شاعر:ڈاکٹر محمد طاہر رزاقی
صفحات:136 قیمت: 100 روپے
ناشر: ادبستان زار،سرائے ترین،سنبھل،ضلع مرادآباد
ڈاکٹر محمد طاہر رزاقی اردو کے معروف شاعر ہیں۔اب تک ان کے چھ شعری مجموعے چھپ چکے ہیں۔”رُتیں“ ان کا تازہ اور چھٹا شعری مجموعہ ہے۔اس میں تین شعری اصناف شامل کی گئی ہیں۔ قطعات ، رباعیات اور ماھیے۔۔۔طاہر رزاقی نے فنی لحاظ سے ان اصناف میں اپنی قادرالکلامی کا ثبوت دیا ہے۔ بے شک بعض بڑے شعراءبھی رباعیات کہتے ہوئے یاتو مغالطہ کا شکار ہوئے یا لڑکھڑا گئے۔تاہم طاہر رزاقی نے نہ صرف رباعی اور قطعات کے فرق کو پوری طرح سمجھا ہے بلکہ انہیں الگ الگ حصوں میں پیش کر کے اس فرق کو قارئین پر بھی واضح کر دیا ہے۔ماھیا کے سلسلے میں بھی ان کا طرزِ عمل حیران کن حد تک پنجابی لَے کو ملحوظ رکھنے والا ہے۔
رباعی قطعہ
شانوں پہ ترے لاکھ ہو شفاف ردا ایک پتھر پہ کوئی دوشیزہ
بے بات زمانے میں نہیں بندھتی ہوا لبِ دریا اداس بیٹھی ہے
عاری ہے اگر جوہرِ علم و فن سے منہمک ہو کے سُن رہی ہے اُسے
زیبائشِ تن کرتی نہیں کوئی قبا موج جو داستان کہتی ہے
ماہیے: جب جب بھی سزا دے گا کیا جادو ٹونا ہے
جرمِ محبت کی ہو کے رہے گا وہ
توقیر بڑھا دے گا جو کچھ بھی ہونا ہے
ڈاکٹر محمد طاہر رزاقی مشاعروں میں بھی بڑے شوق سے سنے جاتے ہیں۔ان کا یہ مجموعہ ان کے ادبی اور عوامی دونوں سطح کے تقاضے پورا کرتا ہے۔امید ہے اسے دونوں سطح پر مقبولیت حاصل ہو گی۔