ای میل سے لکھتی ہے
بات جو اندر کی
کہنے سے ڈرتی ہے
اک خواب حسیں ہے تو
کیسے کہوں لیکن
قسمت میں نہیں ہے تو
پلکوں کو بھگو لوں گا
خون کے اشکوں سے
زخموں کو دھو لوں گا
آواز ہے دھڑکن کی
نام تمہارے ہے
ہر سانس میرے من کی
مانگے سے نہیں ملتا
پھول ہے قسمت کا
کہنے سے نہیں کھلتا
دلدار کو چاہا تھا
سارے زمانے میں
اک یار کو چاہا تھا
دکھ بھی نہ کہا جائے
میرے بنا اُن سے
تنہا نہ رہا جائے
اک آگ میں جل کر بھی
دیکھ لیا، راہِ
الفت میں چل کر بھی
یہ وعدہ ہے اپنا بھی
ساتھ نبھائیں گے
انجام ہو جیسا بھی
الزام لگاتی ہو
خود سے کبھی پوچھو
وعدہ بھی نبھاتی ہو؟
اُس حسن پہ مرتا ہوں
شعر کے پردے میں
تعریف ہی کرتا ہوں
سنگیت سے کیا حاصل
پریت نہیں جس میں
اُس گیت سے کیا حاصل
کانٹوں پہ تو چلتا ہوں
پھولوں کی لیکن
خوشبو سے ڈرتا ہوں
گل ہار بنے ہیں وہ
دورِ خزاں میں بھی
گلزار بنے ہیں وہ
الزام بھی ہوتے ہیں
پیار کی نیکی میں
بدنام بھی ہوتے ہیں
لفظوں کو رسائی دے
چپکے سے کہتا ہوں
بس ان کو سنائی دے
سوغات ہے الجھن کی
روٹھ گیا پھر بھی
بس بات ہے ساجن کی
یوں یاد رکھا تجھ کو
شعرکے گلشن میں
آباد رکھا تجھ کو