خانوں میں بٹا جائے
پانا ہے گر اُس کو
محور سے ہٹا جائے
ہم جیسے فقیروں کا
تار ہے مستقبل
ساعت کے اسیروں کا
برسات پہ پہرہ تھا
ہر سُو اُداسی تھی
ہر سمت ہی صحرا تھا
ساحل کا کنارہ ہو
شام سمے بیٹھیں
تو صبح کا تارہ ہو
رُت بانجھ پرے کردے
برسے گھٹا ایسی
جو کھیت ہرے کردے
پنگھٹ پہ تھا اِک پیاسا
دیتا کیا اُس کو؟
خالی تھا مر ا کاسہ
برسات پہ پہرہ تھا
ہر سُو اُداسی تھی
ہر سمت ہی صحرا تھا
کچھ چھاچھ تھی چاٹی میں
کود گئے دونوں
احساس کی گھاٹی میں
اک شاہ بھکاری ہے
زر کی نہیں خواہش
بس طلب تمہاری ہے
معصوم شرارت ہے
تیری نگاہوں میں
چاہت کی حرارت ہے
اِک بات کہوں سچی
رشتہ جبھی ٹوٹا
تھی ڈور بہت کچی
اِک لہر سمندر کی
توڑ گئی دم ہی
جو چیختھی اندر کی
جب پار گئے اُس سے
حد نہیں وہ ضد تھی
ہم ہار گئے اُس سے
چاندی کے گلاسوں میں
ایک کسک سی ہے
رنگین لباسوں میں
کمزور نہیں ہوتا
گر تِری چاہت کا
اس دل کویقیں ہوتا
گھنگھور گھٹاؤں سے
ہم توہوئے پاگل
ساون کی ہواؤں سے
شیشے کی کوئی گڑیا
پَر نُچ گئے اُس کے
جب اُڑ نے کو تھی چڑیا
چپ چاپ گلی دیکھے
رستہ تکے کس کا؟
ہر وقت گھڑی دیکھے
تھے پھول تپائی پر
سائن کرنے ہیں
اشکوں سے جدائی پر
کیا نیر بہائیں اب
مل کے بچھڑنا ہی
قسمت کا لکھا تھا جب
برسات ہے ساون کی
زور سے برسیں گی
آنکھیں مِرے ساجن کی
منزل ملی آخر کو
راہ میں حائل تھی
دُکھ دھوپ مسافر کو
سنسان حویلی سے
دور کروں کیسے؟
خوشبو کو چنبیلی سے
اے نیل گگن پوچھو!
ملنے نہیں آئے
کیوں میرے سجن پوچھو
بجلی تھی کہیں کڑکی
خوف سے کانپ گئی
معصوم سی اک لڑکی
خاموش زباں ہوگی
بولیں گی آنکھیں
اِک بات بیاں ہوگی
کیوں نیند ادھوری ہے
خواب نہیں دیکھے؟
وہ شخص ضروری ہے
چاہت کا سبق پڑھ لے
چپکے سے بولا وہ
اِس دل کا ورق پڑھ لے
فرہاد سا قصہ ہوں
عشق کہانی کا
میں آخری حصہ ہوں
شب بھر کا نظارا تھا
چھوڑ گیا ہم کو
جوچاند ہمارا تھا
کیوں آس رَکھی برسوں
آئے نہ پردیسی
اب سوکھ گئی سرسوں
دل ڈول گیا اُس کا
غصے سے ساجن
کچھ بول گیا اُس کا
کچھ شعر بیاضوں میں
تیری ہدایت پر
ہیں راز درازوں میں
گلدان میں گلدستے
ساتھ نہ ہو جو تم
ویران لگیں رستے
تھے پھول لگے گملے
خواب تعاقب میں
داناں ہی بنے کملے
اِک تنگ سی پگڈنڈی
دیکھ کے چلنا تم
دنیا ہے ہوس منڈی