پیڑوں پر پھول کھلے
کتنی رُتیں بیتیں
ہمیں ساجن سنگ ملے
آنکھوں میں پانی ہے
تیرے بغیر مجھے
روتی یہ جوانی ہے
آکاش پہ باد ل ہیں
دُنیا کہے کچھ بھی
ہم تم پہ ہی پاگل ہیں
گیندے کی کیاری ہے
جان سے بھی بڑھ کر
مجھے عزت پیاری ہے
منڈیر پہ مینا ہے
تیرے لئے جگ کا
ہر دُکھ مجھے سہنا٭ ہے
جب چاند نکل آئے
دل کی تڑپ مجھ کو
ترارستہ دکھلائے
٭پنجابی تلفظ میں قافیہ روا ہے۔
سکھیوں سے دُکھ بانٹے
پھول ہے پیا رترا
اور یادتری کانٹے
گاگر سے کمر بھیگے
تیری جدائی میں
اشکوں سے نگر بھیگے
آکے مکھ دکھلاجا
دُکھ کی ہوں میں داسی
اور تو سُکھ کا راجا
پھولی سرسوں پیلی
تجھ سے بچھڑ کر میں
ہوں سوکھی ہوئی تیلی
برکھا میں چُنر بھیگی
اِدھر تو گھر بیٹھا
راہ تک میں اُدھر بھیگی
نرگس میں خوشبو ہے
چاہے جدھر دیکھوں
نینوں میں بس تو ہے
بس اتنی کہانی ہے
یاری دو دن کی
اور دُنیا فانی ہے
مشکل پرمشکل ہے
ستم زمانے کے
اور تنہا اک دل ہے
ترا پیار نہیں بھولی
غیر کاتو جوہوا
میں لٹک گئی سولی
ہونٹوں پر سسکی ہے
آمل جا دلبر
بس آخری ہچکی ہے
ہائے تری ہو نہ سکی
میرا جنازہ گیا
جگ سمجھا ڈولی گئی
جنگل کو جلانانہیں
سن لواری سکھیو
کبھی دل کو لگانانہیں
دن ملن کا آیا ہے
آمل لیں کھل کر
کل کِس نے دیکھا ہے
سُکھ کے دن روٹھ گئے
کیا کروں چندا کا
مراماہی دور بسے
ہاں ملن کی آس نہیں
یہ نہ سمجھ لینا
نینوں میں پیاس نہیں
اشکوں کی بھری پرچیں
خواب وہ توڑ گیا
میں چنتی رہی کرچیں
اُس سے اچھا مرنا
اگر محبت کا
اظہا رپڑے کرنا
میں پانچوں گھڑی روئی
جائے نمازمِری
اشکوں سے بھیگ گئی
منڈیر پہ بانہہ دھروں
شام سے لے کر میں
شب بھر تری راہ تکوں
کل رات گِنے تارے
تیری جُدائی میں
دُکھ یاد کئے سارے
جارب ترا رکھوالا
انکھیاں روئیں گی
لب پر ہوگا تالا
یہ عشق مصیبت ہے
روح کے زخموں کو
دل کہتا محبت ہے
نہیں سمجھے محبت کو
دل کے خزانے کو
اور اشکوں کی دولت کو
دل کی نہ کبھی مانے
دل لے کر ماہی
دلبر کو نہ پہچانے
دے دے ناطبیب دوا
ساجن روٹھ گیا
اب روٹھے نہ مجھ سے خدا
مرا بچنا ہوا مشکل
ترے ساتھ لگاکر دل
شام وسحر تڑپوں
نہیں دل کا کہاسمجھے
لب سے میں کیابولوں
ساجن سے خدا سمجھے
وہ سہرا باندھ چلا
تڑپوں چکوری سی
مجھے چھوڑ کے چاند چلا
ان چاند ستاروں سے
ماہی پردیسی
کیا مجھ کو بہاروں سے
دل کا دُکھڑا سمجھے
بندوں سے کیا شکوہ
مرا درد خدا سمجھے
میرے غم کی کہانی ہے
اشکوں سے لکھی ہے
آہوں کی زبانی ہے
نینوں سے لگی ہے جھڑی
دیدکی خواہش میں
میں ہوں نین بچھائے کھڑی
کب یار سے بات کروں
ماہی نہیں گھر میں
دیوار سے بات کروں
دن کیسے بھی کاٹ ہی لوں
رین کٹے کیسے
چن ماہی میں کس سے کہوں
جب چھوڑ ہی جانا تھا
دو دن کا سُکھ ہے
پہلے بتلانا تھا
اب صبر کی ہوگئی حد
اب بھی نہ آئے تو
دیکھوگے ہماری لحد
صبحوں کی ہوائیں ہیں
بچھڑے سجن کے لئے
ہونٹوں پہ دُعائیں ہیں
تو ہوگیا ہرجائی
سُن سُن کر طعنے
میری جان پہ بن آئی
ہیں یہ لوگ رُلانے کو
لاکھ بہانے کریں
دو بول پڑھانے کو
کیا دیس سے لانا ہے
وعدہ یہ کرکے جا
تجھے لوٹ کے آنا ہے
پیتم کی پجارن ہوں
دل کی امیرسہی
الفت کی بھکارن ہوں
وہ دامن چھوٹ گیا
دُنیامری اُجڑی
رب میرا روٹھ گیا
کیا مجھ سے خطائیں ہوئیں
نینوں سے جل سوکھا
اور گونگی صدائیں ہوئیں
میں آس نہ توڑوں گی
چاہے نہ لکھو مجھے
خط لکھنا نہ چھوڑونگی
سن کر پچھتائیں گے
ذکر وفا پہ کئی
نیناں بھر آئیں گے
مجھے وقت سزا جیسا
بلبل کا نغمہ
رونے کی صدا جیسا
رستہ بھٹکاکے گیا
جی تو رہی تھی میں
کیوں پیار سکھا کے گیا
یہ ظلم نہ ہوجائے
ماہی کے پہلو میں
کوئی اور نظر آئے
خود اپنا ہی کتبہ جڑوں
تجھ سے بچھڑ کر میں
جہلم ہی میں کود پڑوں
کہدو کوئی سجنا سے
راہیں نہ تک تک میں
چلدوں کہیں دُنیا سے
کیوں جی کو دکھاتی ہے
ڈال سے اُڑ کوئل
منڈیر پہ گاتی ہے
چھت پر بوندیں ٹپکیں
راہ تکی تیری
آنکھیں بھی نہیں جھپکیں
دُکھ نے سُکھ چین لیا
تیری جدائی میں
نینوں نے بین کیا
یادوں کے چلے بھالے
پیلاہوا مکھڑا
آنکھوں میں پڑے ہالے
خوشیوں کے پڑے لالے
راہ میں گھومتی ہوں
پیروں میں پڑے چھالے
دل رو رویادکرے
ظالم ہے دُنیا
تجھے مجھ سے دور رکھے
نینوں سے بلائیں لوں
مکھ ترا دیکھا کروں
پل سے پل جیتی رہوں
یادوں کے چبھیں بھالے
پیلاہو اچہرہ
آنکھوں میں پڑے ہالے
خوشیوں کے پڑے لالے
راہ میں بھٹکی ہوں
پیروں میں پڑے چھالے
دل رو رو دہائی دے
بیری ہوا ہے جگ
مجھے ماہی سے دور کرے
لگی دل کی ہی مارگئی
نین لگابیٹھی
جان اور دل ہارگئی
دل اب بھی تجھے دیکھے
اک ترے جانے سے
دنیا میں جی نہ لگے
نیندیں بیکا رگئیں
خواب میں آیانہ تو
مجھے راتیں مارگئیں
میرے دل کانہ دُکھ جانے
خط نہ تراآیا
دیتی ہے سکھی طعنے
رونے کی میں ڈھونڈوں جگہ
آنسو تو ایک بہے
دل تڑپے بیس دفعہ
بچھڑی گل سے خوشبو
آنکھ کی ویرانی
تجھ کو ڈھونڈے ہر سو