جس کی بڑی خدمت کی
سرو سہی جیسا
گل رُوئی قیامت کی
چہرے پہ گہن جیسا
بکھرا خوشبو سا
رنگیں تھا چمن جیسا
ہر سمت تھی جس کی لو
اندھی بستی میں
ڈھونڈوں میں کہاں اس کو
جنگل ہیں پاروں کے
ذرہ نہیں دیکھا
عازم ہیں سیاروں کے
بندے کے تقاضے سو
لاحق رہتا ہے
گر بندہ نوازی ہو
گھر سے درویش گیا
ترسا سائے کو
مجھ سے دل ریش گیا
گردابوں میں صرصر گم
بڑھتی طغیانی
صحراؤں میں لشکرگم
بڑ برسوں پرانا ہے
ایک جٹا دھاری
بوڑھا یہ سیانا ہے
خوش رنگ سویرے میں
ملتا نہیں انساں
مدفوں ہے اندھیرے میں
خورشید سے ڈرتا ہوں
چاند کی بگھی میں
ماضی سے گزرتا ہوں
پھر جاں سے گزرنا ہے
جنگجو بندوں کو
میداں میں اترنا ہے
ہو لاکھ وہ مرض شناس
برحق مرنا ہے
مت جانا اس کے پاس
مندر ہیں شوالے ہیں
انساں رہا وحشی
ہاتھوں میں بھالے ہیں
گرجے ہیں مساجد ہیں
وحشت زندہ ہے
پُرخون معابد ہیں
میداں ہوئے جل تھل سے
کویل مست ہوئی
بوندوں کی چھل بل سے
سرخاب کا پرڈ ھونڈا
بستی گونج اٹھی
لڑکی نے بر ڈھونڈا
پھرتے ہیں سراسیمہ
لاش لیے اپنی
اوروں کے لیے بیمہ
راتوں کو جاگ گئے
الوکیا چیخا
سب پشو بھاگ گئے
رونے کا وقت نہیں
منزل دور سہی
سونے کا وقت نہیں
دنیا کے عجائب ہیں
اوج پہ چنگیزی
پُرخون مصائب ہیں
بارش کے ترانے سن
جھیل کنارے پر
کونجوں کے گانے سن
اب ٹسوے بہا گوری
بھاگ گیا سائیں
ڈھیلی تھی تری ڈوری
پردیس کے سوداگر
بیچ گئے کتنے
افیون بھرے کنٹر
خوابیدہ ہیں پہرے دار
ظالم غارت گر
لوٹیں گے ہر بازار
کٹھ پتلی ناچے گی
اور مکینوں کو
محکوم بنا ئے گی
کلیوں نے در کھولے
کویل کانوں میں
گیتوں کا رس گھولے
سمرن جپ جب دیکھی
آنکھ نہیں جھپکی
مچھلی کی تڑپ دیکھی
اک دلبرِ افسوں گر
چہرہ گندم گوں
لٹتے گئے کتنے گھر
اک شمع جلی ہوتی
ہم پروانہ وار
اور اس کی گلی ہوتی
پر نور دھنک دنیا
رنگِ محبت سے
آنکھوں کی چمک دنیا
کھڑکی سے جھانکی ہے
گجری نور بھری
کیا دودھیا بانکی ہے
مل مجھ کو اکیلے میں
ساجن کیا ملنا
بیساکھی کے میلے میں
خوش رنگ بسنت آئی
رستہ لمبا ہے
کٹ جائے گی تنہائی
دیوالی ہے جوبن پر
دیپ امیدوں کا
رکھ بیٹھا ہوں روزن پر
بلبل ہے تماشائی
مہکے پھولوں کی
جنگل میں بہار آئی
رکنے کی نہیں طغیانی
باہر مت جھانکو
یہ رات ہے طوفانی
کیوں روتا ہے جانی
ہر شے مٹنی ہے
کیا آتش ، کیا پانی
مریل مرا دل مریل
بوجھ اٹھائے گا
ٹٹو کی طرح اڑیل
شاعر تھا بہت خستہ
لکھی’’ شبِ رفتہ‘‘
نظموں کا ہے گل دستہ
پریوں کی حسیں رانی
کر گئی ہے حیراں
گڑیا تھی وہ ایرانی
دجلہ کی روانی نے
مان سدا رکھا
عربوں کی کہانی نے
رکتے ہی نہیں آنسو
اپنے فرات و نیل
ہو نے لگے بے قابو
جب موج پہ آئے گی
کوئی رواں ہرنی
رستے بھی دکھائے گی
باغوں میں ہے چنگیزی
پھولوں کو مالک!
کانٹوں سی دے تیزی
اسباب بندھے رکھنا
ڈاکو آئیں گے
دروازے کھلے رکھنا
انوار سے پُر ہستی
ننگی ثقافت میں
کیونکر نہ کرے مستی
اظہار نہیں کرنا
اپنی محبت کا
اقرار نہیں کرنا
بیباک ہیں سرمد سے
قول علامہ کے
معمور ہیں مقصد سے
رکھا ہے طاق پہ سر
جھوٹ کو سچ جانا
اخبار میں چھپنے پر
چرواہاگیاتھا چین
بھینس نہ بھاگے گی
لایا ہے ایسی بین
پڑھنے کا زمانہ ہے
پشواِجڑکے
ہر ایک یگانہ ہے
رانجھے نہیں ہیروں کے
ورثہ شاہوں کا
کشکول فقیروں کے
سن شور عنادل کا
کشتی خود ڈوبی
شکوہ نہیں ساحل کا
کھل کھیلتے ہیں طاغی
ظلم نہیں رکتا
انصاف ہوا باغی