صلاح الدین پرویز(دہلی)
پہلا اسٹروک:
ان بند کواڑوں کو دستک تو نہیں دو گی!
تکتا ہی رہا ہر پل
دل شام کے ایزل پر اِک شب کی اُداسی میں!
دستک سے تمہاری میں
جوں کھولوں کواڑوں کو
ایزل پہ بہکنے تم
کینوس پہ بکھرنے تم
ہم بستری کرنے تم
جھونکے سی چلی آؤ
یہ شب میری اپنی ہے
یہ شب بہت اپنی ہے
صدیوں سے مری سنگی
رَگ رَگ میں جھلستی ہے
یہ شب میری محبوبہ!
برسوں کی یہ محبوبہ...
ڈرتا ہوں بہت اِس سے
ٹک چھوڑ کے ایزل گھر
دوبارہ بدن بن کے
اک نغمہ مسرت کا
پھر سے نہ یہ بن جائے
آفاق کی سرحد تک
تنہا مجھے کرجائے!
ان بند کواڑوں کو دستک نہیں دینا تم!
دوسرا اسٹروک:
کینوس پہ برہنہ لیٹی ہے
ناگ آتے ہیں، مَن لیے اپنے
اُس کی قندیلیں لال کرتے ہیں
اور واپس گپھاؤں میں اپنے
لوٹ جاتے ہیں ناگنوں کے کنے
آتماؤں کو بھوگنے کے لیے!
اور وہ کینوس پہ لیٹی ہوئی
اِک برہنہ بدن گزیدہ برہن
لال قندیلیں لے کے اپنی جب
شب کے حمام خانۂ دل میں
کینوس سے اُتر کے بڑھتی ہے
ٹوٹ جاتی ہے شیشہ شیشہ سی
اب لہو کینوس پہ لیٹا ہے
شیشہ شیشہ، سنا سنا روشن
یہ غروب ہوگا اب بوقتِ حشر!
تیسرا اسٹروک:
اے تصویر بنانے والے!
برش، رنگ کو سہلاتا ہے
سرگوشی کرتا ہے مجھ سے...
اے تصویر بنانے والے !
پہلا رنگ ہی اُس کے بالوں سے ملتا جلتا ہے
پہلا رنگ ہی اُس کے بالوں جیسا اتنا سکھی، اتنا چھیّاں دائی ہے
دوسرے سارے رنگ مجھے جھوٹے لگتے ہیں
اے تصویر بنانے والے!
رہنے دے، اس پاگل کردینے والے
رنگ کے سنگ مجھے
رہنے دے اننت تلک
مجھ کو
اس اننت ناگ کے پاس
میں نے جان لیا ہے
اننت ناگ کا کولاہل
دو ہی چیزیں دے سکتا ہے...
یا تو بہت سی مہکی میٹھی نیندیں
یا تو بہت سی جگتی جلتی آنکھیں
اے تصویر بنانے والے!
چوتھا اسٹروک:
یہ روپک ہے، النکار ہے
چنھ ہے یہ...
لے جاؤ اِن ساروں کو
اپنی کویتائیں اور کہانی لکھنے کو
لیکن اِک پل...
میرے ساتھ اِک ایسی عورت ہے
سمپورن
منگل سوتر پہنتی ہے جو
اُس کے جوبن اٹھے ہوئے
مدرا برساتے ہیں!
تین سو پینسٹھ آسن جاننے والی اِس عورت کی ناف میں
خوشبو ہی خوشبو ہے
یہ پردہ کرتی ہے، تم سے
اور برہنہ ہوکے مجھ سے
انت پہر میں شب کے
بھوگ سمبھوگ کی رچناؤں میں
چمبن، سوم، ویریہ، شہد،
آلنگن کے منتھن کا
دھرم اَلم برپا کرتی ہے
منتھن کے دھرم اَلم کی برپائی سے
پیدا ہوتی ہے کویتا اور کہانی
کالی داس اِسے پدمنی کہتا ہے!
پانچواں اسٹروک:
اس نے اِک ایسے پیالے کو ڈھالا
جس میں سورج کا فوّارہ روشن تھا
ہم نفس، ہم نوا میرا
جیسا، جہاں بھی تھا
پیالے میں آیا
سورج کا فوّارہ
بوسوں کی تحریر سے اُس کی
ایک کاغذ پہ میرے لیے
لال رنگوں گھلا
آسماں آب سی اک ندی سا بنا
اس ندی میں نہاتا ہوں اب
چاند کا عکس دیکھ کے
زعفراں اُس کے ہونٹوں کے
دِل مشک بوسے مٹاتا ہوں میں!
چھٹا اسٹروک:
میرے سینے میں وہ
رقص کرنے لگا
میں نے جب ایک سنجیونی
اُس کے ہونٹوں سے چھینی...
دیکھا نہیں اُس کو کسی نے
خدا نے بھی...
اے ری شب !
تب مرے واسطے
میری مٹی سے اِک چاند روشن ہوا
پھیلتا ہی گیا جو مرے اِردگرد...
مجھ سے بولامصور
کیسے کاغذ کی تصویریں تعمیر کرتا ہے
چل مرے واسطے
اِک جیتا جگتا ہوا بت بنا!
مصور اُسی روز سے
بت بنانے میں مصروف ہے
(جانے کِس یُگ کی یہ بات ہے)
ساتواں اسٹروک:
اب بس بھی کر
شب کے دو بج چکے ہیں
جان!
پینے دے خیام کے سنگ
بادۂ نابِ لعل
صبح پھر اُٹھنا ہے
جانا ہے حافظ کے سنگ
خلد آباد...
بعد اِس کے وہی ایک رومی کا دَر
اور وہی ایک تبریز فرقت
تبریز فرقت کو رنگوں میں لکھنا
جیسے رادھا کو اک چتر میں ڈھالنا...
عاشق ہمہ روزہ مست و شیدا بادا
دیوانہ و شوریدہ و رسوابادا
در ہشیاریٔ غصّہ ہر چیز خوریم
چوں مست شدیم ہرچہ بادا بادا