سعید شباب(خانپور)
انٹرنیٹ پر یاہو گروپس کے حلقہ اردو رائٹرز پر ایک مکالمہ شروع ہوا تھا۔سرقہ اور جعلسازی کے موضوع پر ہونے والی یہ بحث درمیان میں ہی رُک گئی اور اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آسکی ۔چند دن قبل میں محترم نذر خلیق صاحب سے ملا تو اس مکالمہ پر اس وجہ سے بات ہو گئی کہ یہ موضوع ان کا پی ایچ ڈی کا موضوع بھی ہے۔تب مختلف دوستوں سے رابطہ کرکے اس مکالمہ کی ساری بحث جمع کی گئی۔ وہ ساری بحث یہاں ریکارڈ کے طور پر یکجا کی جا رہی ہے۔نذرخلیق صاحب نے بتایا کہ انہوں نے صفدر ہمدانی صاحب کو نجی طور پر ایک ای میل کے ذریعے بھی توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنی جن غزلوں کے سرقہ کی بات کر رہے ہیں ان کے حوالے فراہم کر دیں لیکن ھمدانی صاحب نے اپنے دعویٰ کا ثبوت تاحال فراہم نہیں کیا۔ نذر خلیق صاحب کی وہ نجی ای میل بھی اس مکالمہ کے آخر میں شامل کی جا رہی ہے۔
سرقہ کا الزام لگا کر اس کا ثبوت نہ دینے کا رواج بھی اب عام ہونے لگا ہے۔حالیہ دنوں میں بعض لکھنے والوں کی طرف سے ایسے دعوے سامنے آئے کہ انڈیا کے فلمسازوں نے ان کی کہانیاں چوری کر کے فلم بنا لی۔ایسے دعوے درست ہو سکتے ہیں لیکن دعویٰ کرنے والوں نے نہ اپنی کہانی کا نام بتایا،نہ اس فلم کا نام بتایا جو ان کے بقول در اصل ان کی لکھی کہانی تھی۔میرے نزدیک اگر کوئی لکھنے والا کسی پر سرقہ کا الزام لگاتا ہے لیکن اس کا مستند ثبوت فراہم نہیں کرتا توایسا الزام لگانے والا خود جعلسازی کے زمرہ میں شمار کیا جانا چاہئے۔
اسی طرح بعض مدیران کی طرف سے سہواَ بھی کسی کی تحریر کسی دوسرے کے نام سے چھپ جاتی ہے۔سہواََایسا ہوا ہو تو نوٹس میں آتے ہی ایڈیٹر کی طرف سے وضاحت چھاپ دی جاتی ہے۔ایسے سہو کوغیر ضروری طورپر سرقہ قرار دینا بچکانہ حرکت ہو گی ۔بہر حال اس موضوع پر ہمارے شاعروں ، ادیبوں اور مدیران کے پاس اپنے اپنے تجربے ہوں گے۔ ایسے تجربات کو سامنے لانے کے لئے شائع کیا جانا چاہئے۔(سعید شباب)
******************
سرقہ اور جعلسازی کا فرق اور تعین کیسے کیا جائے؟
Thu, 1 2Feb 20040 4:24:3 6EST
اردو رائٹرز کے اس حلقہ پر نذر خلیق صاحب کی طرف سے یہ اعلان آچکا ہے کہ وہ ’’اردو ادب میں سرقہ اور جعلسازی‘‘ کے موضوع پر اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔میں یہاں اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے تمام دوستوں سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ان سوالات کی روشنی میں اپنے خیالات کا اس انداز میں اظہار فرمائیں کہ بحث برائے بحث کی بجائے اس موضوع کو روشنی مل سکے۔جس کی مدد سے اردو ادب میں سرقہ اور جعلسازی کی وارداتوں کو نمایاں کئے جانے میں مدد ملے۔
۱۔توارد اور سرقہ میں فرق کیسے کیا جانا چاہئے؟۲۔جو کھلے سرقہ کا ارتکاب کرچکے ہیں ان کو کس نوعیت کا ادیب قرار دیا جانا چاہئے؟۳ جعلسازی اورسرقہ میں فرق کو کیسے واضح کیا جا سکتا ہے؟۴۔دوسروں سے کتابیں لکھوا کر اپنے نام سے چھپوانے والے شاعروں اور ادیبوں کو جعلی شاعر ادیب کہنا چاہئے یا کچھ اور؟۵۔دوسروں کو کتابیں لکھ کر دینے والے شاعروں اور ادیبوں کا کس حد تک محاسبہ کیا جانا چاہئے؟
یہ چند ابتدائی سوال ہیں۔ان سے مزید سوال بھی اٹھائے جا سکتے ہیں۔ایسے سوال جن کے جواب بھی لازماََ تلاش کئے جائیں۔اس ساری گفتگو کے دوران کوشش کی جائے کہ گفتگو کو ذاتیات سے ممکنہ حد پاک رکھاجائے۔لہجے میں تلخی لانے سے گریز کیا جائے۔جہاں بعض ناموں کا ذکر کرنا ناگزیر ہوجائے وہاں بے شک نام دے دئیے جائیں ۔تاہم گفتگو کو اس حد تک اصولی دائرے میں رکھا جائے کہ مذکورہ تحقیقی مقالے میں اس بحث کے حصے اقتباس کئے جا سکیں۔امید کرتا ہوں کہ جن دوستوں کی اس موضوع کے جملہ پہلوؤں پر گہری نظر ہے،وہ ضرور اپنے قیمتی خیالات کا اظہار فرمائیں گے۔خیال رہے کہ ہم محض بحث کرنے سے زیادہ مذکورہ تحقیقی مقالہ اور ایک اہم ادبی مسئلہ پر اپنے محقق دوست کی علمی و تحقیقی مدد کرنے جا رہے ہیں۔
حیدر قریشی ماڈریٹر اردو رائٹرز یاہو گروپس
**********************
Date: Thu, 1 2Feb 20011 4:25:3 7-050 0
رحیم انجان ٹورونٹو ( کینیڈا )
(۱) توارد۔۔یعنی ایک ہی مضمون کا سوجھنا۔۔محض اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔ البتہ چوری ، اُس مضمون کے انداز اظہار کی ہے اور میری ذاتی رائے کے مطابق اظہار خیال ہی در اصل تخلیق کا عمل ہے۔بے حسی ، محبت ، بے وفائی اور ایسے ہی کئی دوسرے موضوع ، مضمون ہی کے ضمرہ میں آئیں گے۔جنہیں ہر ادیب اور شاعر اپنی اپنی تخلیقی صلاحیت کے مطابق بیان کرتا ہے ۔اور اپنے حسنِ بیان ہی کی وجہ سے چھوٹا یا بڑا ادیب یا شاعر کہلاتا ہے۔
(۲) موضوع تو ہمیں سو سائٹی میں اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے سڑکوں اور محفلوں میں ملتے ہیں۔جنہیں جنم دینے کے لئے ہمیں تخلیق کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور وہ عمل ہی ادب یا شاعر کی محنت کہلاتا ہے اور جو ادیب یا شاعر کسی دوسرے ادیب یا شاعر کی تخلیق کو چراتا ہے ، یعنی اُس کی محنت پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔ اور یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اُس نے یہ اقدام تخلیقی محنت سے گریز کیلئے کیا ہے۔جس میں اُس کی طرف سے ارادۂ چوری یعنی سرقہ کا فعل شامل تھا تو ایسے ادیب یا شاعر کو خود کو شاعر یا ادیب نہیں کہنا چاہیے اور ظاہر ہے سوسائٹی سے اُسے عزت بھی اس کی ادیبانہ یا شاعرانہ صلا حیت اور مقامِ ہی کے مطابق ملتی ہے۔
(۳) جعل سازی اور سرقہ میں فرق کیسے کیا جا سکتا ہے۔۔؟ یہ قدرِ مشکل سوال ہے۔اس کا کوئی مستند جواب تو ڈاکٹر صاحب، جو یہ موضوع محفل میں نہ صرف لے کر آئے ہیں اس پر پی ایچ، ڈی بھی کر رہے ہیں۔ ، وہی دے سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ قصہ مجھے یاد د آ رہا ہے۔ایک بار میں نے فیضؔ صاحب سے عرض کیا۔ فیض صاحب ! اپنی زندگی کا کوئی دلچسہ قصہ سنائیں۔فرمانے لگے۔۔بھئی ! بات یوں ہے، ایک بار ہندوستان کے کسی دور دراز کے علاقے میں ہم ایک مشاعرے کی صدارت کر رہے تھے۔ایک صاحب آئے اور ہماری ہی صدارت میں ، ہماری ہی ایک نظم سنا کر ، محفل سے داد سمیٹ کر چلتے بنے۔ اور ہم اُن کا مُنہ دیکھتے اور حوصلے کی داد دیتے رہ گئے ۔ یہ قصہ سن کر میں اُن صاحب کی جرا ء تِ رندانہ پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔چند لمحوں کی غورو فکر کے بعد فیض صاحب سے عرض کیا۔جناب آپ جیسے ایک بڑے شاعر کی چوری ، اور وہ بھی اُسی کی محفلِ صدارت میں، بہت مشکل کام ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے، جیسے اُس نے آپ سے ایک پیار بھری چھیڑ خانی کی ہو۔جس میں مشاعرے کی منتظمین بھی شامل رہے ہوں گے۔اِس صورتِ حال کے بارے میں ہمارے یاران محفل کیا فرماتے ہیں۔۔؟
(۴) کسی بھی شاعر یا ادیب کو اپنی کوئی بھی تخلیق اپنی اولاد کی طرح عزیز ہوتی ہے ۔ماہنامہ ملاقات ٹورونٹو کینیڈا، کی ادارت کے زمانے میں نیو یارک کے ہر دلعزیز اور بلا شبہ بہت ہپی پیارے شاعر جناب مامون ایمن نے اپنی ایک غزل کے شعر میں کتاب پر کہا تھا۔شاعر کو اپنا ہر شعر اپنی اولاد کی طرح عزیز ہوتا ہے۔اور کتابت کی غلطی شعر کو اپاہج بنا دیتی ہے۔اگر آپ کسی کے بچے کو اپنی غفلت سے اپاہج بنا دیں تو وہ آپ کے بارے میں کیسے جذبات رکھے گا۔۔؟ اب جناب مامون ایمن کی اس بات کے تناظر میں کسی ادیب یا شاعر سے اس کا پورا دیوان یا کوئی کتاب خرید کر اپنے نام سے چھپوا لینے کے مجرمانہ فعل کو نظر دوڑائیں اور سوچیں کہ اس جرم کی جڑیں کہاں کہاں پہنچی ہوئی ہیں اور ظاہر ہے ایسے شہرت کے بھوکے شاعر یا ادیب جس کی شہرت کے ہونٹوں پر کسی غریب شاعر یا ادیب کاخون لگا نظر آ رہا ہو۔۔کو کون شاعر یا ادیب سمجھے گا۔۔ ایسے لوگوں کو تو ان کی بیویاں بھی شاعر یا ادیب کی حیثت سے عزت نہیں کرتیں۔گھر میں ان کا مذاق اڑاتی ہیں۔
(۵)جس نے اپنی محنت کو بیچا ہے وہ تو مجبور تھا۔۔اور اسے مجبور بنایا ہے ہمارے معاشرے میں خرید کر پڑھنے کے رحجان کی کسم پرسی نے۔ادب سے معاشرے کی بے نیازی نے۔۔ گلہ پھاڑ پھاڑ کر کشی شاعر کو اس کے کسی دشعر پر داد دے لینا ہی ادب دوستی نہیں ہے۔۔اس شاعر کو خرید کر پڑھنا بھی ادب دوستی ہے۔لیکن جب ہم ایسے نہیں کرتے تو پھر ہمارا شاعر اور ادیب اپنی مفلسی کا شکار ہو کر شہرت کے بھوکے بھیڑیوں کے آگے اپنی اولاد کو نیلام کر دیتا ہے۔اگر کسی کو کچھ لکھ کر دینا بھی جرم ہے تو یہ جرم میں بھی کر چکا ہوں۔یہاں ٹورونٹو میں میری پہلی جاب سکیورٹی گارڈ کی حیثیت سے تھے۔میری ایک کہانی یاد پشیماں نیا دور میں چھپی۔جس پر میرے نام کے ساتھ ٹورونٹو کینیڈا بھی لکھا تھا۔۔ایک صاحب نے ہمیں تلاش کر لیا اورط اپنی ایک کہانی ہمیں دکھائی۔۔جس کے چند صفحے پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ کہانی کی نوک پلک نہیں بالکل نئے سرے سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ میں نے ان سے کہا کام بہت محنت طلب ہے۔وہ کہنے لگے تو محنت کیجئے۔ ہم نے محنت کی۔۔اسے اپنے کام پر رات کی شفٹ میں لے جاتے تھے۔اور جیست جیسے وقت ملتا رہا لکھتے رہے۔ دو ماہ میں کہانی مکمل ہو گئی۔۔جسے وہ لے کر چلے گئے۔ ایک ہفتے کے بعد آئے۔یہ ۳۷۹۱کا واقعہ ہے ۔۔وہ ہمیں پانچسو ڈالر دے کر چلے گئے۔اُس زمانے میں پانچسو بہت بڑی رقم تھی۔لیکن اس میں کہانی اُن کی تھی ، جسے میں نے اپنے اچھے یا برے اسلوب میں لکھ دیا تھا۔اب آپ مجھے مجرم کیوں کہہ سکتے ہیں۔میں نے تو اپنی محنت اور شہرت کو اپنے بچوں کو رزقِ حلال فراہم کرنے کیلئے بیچا ہے۔ممبئی کی فلم انڈسٹری میں چھوٹے لکھنے والوں کے ساتھ یہی کچھ ہوتا چلا آرہا ہے۔ مارکیٹ میں جس شاعر کے نام کی مانگ ہے اس کے پاس ڈیمانڈ کے مطابق لکھنے کا وقت نہیں ہے اور وہ دوسرے شاعروں سے لکھوا کر اپنے نام سے بیچتا جا رہا ہے۔ طوالت کے لئے معذرت کے ساتھ۔۔
***********************
Date: Thu, 1 2Feb 20032 4:44:3 3+000 0(GMT)
صفدر ھمٰدانی ( لندن )
جنابِ من میرے خیال میں تو لفظِ سرقہ کی بجائے صاف صاف چوری کا لفظ استعمال کرنا چاہیئے کیونکہ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ سرقہ کرنے والوں نے چور کہلائے جانے سے بچنے کے لیئے اسے سرقے کا نام دے رکھا ہے تا کہ براہِ راست کسی قانونی زد میں نہ آ سکیں․یوں بھی پاک و ہند جیسے ممالک میں صرف ادب ہی کیا کسی بھی شعبے میں چوری کرنے والے کو پکڑنے کا کوئی قانون نہیں․جہاں تک ’’توارد‘‘ کا تعلق ہے رو توارد خیال کا ہو سکتا ہے ،قافیے ردیف کا ہو سکتا ہے، نفسِ مضمون کا ہوسکتا ہے ،ایک آدھ مصرعے کایا زیادہ سے زیادہ ایک آدھ شعر کا ہو سکتا ہے لیکن پوری پوری غزل کا ’’توارد ‘‘ تو سوائے چوری کے کچھ نہیں اور اس پر طرہ یہ کہ دیدہ دلیری سے ایسے لوگ اسے صرف یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ شاید آپ سے یہ اشعار سُنے ہوں اور ذہن میں رہ گئے ہوں․میں ذاتی طور پر دو ایسے واقعات کی طرف توجہ دلوانا چاہتا ہوں․فی الحال تو متعلقہ افراد کے نام نہیں لکھ رہا کہ ایک وبال اٹھ کھڑا ہو گا لیکن اگر احباب نے مجبور کیا تو مجھے یہ نام لکھنے میں بھی کوئی عار نہیں․یہ بات ہے ۱۹۷۷،۱۹۷۸کی۔میں لاہور ریڈیو پر پروڈیوسر تھا ․ایک غزل میری خود میرے ہی نام سیپ کراچی میں شائع ہوئی․ایک روز رات میں میں نے یہی غزل طاہرہ سید کی آواز میں لاہور ٹی وی سے سُنی تو سُن کر خوش ہوا کہ شاید ٹی وی پروڈیوسر کو غزل اچھی لگی ہو اور اُس نے سیپ سے لے لی ہو کیونکہ وہاں ریڈیو ٹی وی میں یہ معمول ہے کہ ادبی جرائد سے شعرا کا کلام انکی کسی اجازت اور معاوضے کے بغیر لے لیا جاتا ہے ․لیکن حیرت کی انتہا اسوقت نہ رہی جب پروگرام کے آخر میں شاعر کا نام صفدر ھمٰدانی کی بجائے۔۔۔۔لکھا ہوا آیا․میں نے اپنے والدِ مرحوم (مصطفیٰ علی ھمٰدانی)کے مشورے پر سیپ کی اُس صفحے کی فوٹو کاپی کراچی ٹی وی کے جی ایم کو بھیجی جنہوں نے چند ہفتوں بعد یہ جواب بھیجا کہ سیپ کی انتظامیہ کے مطابق یہ درست ہے کہ غزل آپکے نام سے چھپی ہے لیکن یہ نام(میرا نام) غلطی سے چھپ گیا تھا غزل دراصل انہی شاعر کی ہے جنکا نام ٹی وی پر آیا ہے۔۔چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ داراد․․․․غزل تھی۔۔
اب نہ اُس سمت نظر جائے گی۔۔۔جیسے گزرے گی گزر جائے گی
اسی طرح میری ایک غزل تھی۔۔۔سوچتا ہوں کہ اگر میں بھی پیمبر ہوتا۔۔۔پھر ہر اک ہاتھ میں ممکن ہے کہ پتھر ہوتا
یہ غزل جگجیت سنگھ اور آصف رضا دو گلوکاروں نے گائی ہے اور کنگنا نامی سی ڈی میں بھی ہے․نیویارک میں ایک نو آموز شاعر نے یہ پوری کی پوری غزل صرف مقطع میں اپنا نام بدل کر اپنے مجموعے میں شامل کر لی اور میرے استفسار پر صرف اتنا کہا کہ ہو سکتا ہے کہ لاہور میں آپ سے سُنی ہو اور ذہن میں رہ گئی ہو۔۔۔با خُدا اب کوئی بتائے کہ یہ’’ توارد‘‘
ہے، سرقہ ہے یا کیا ہے؟
میں نے خود ذاتی طور پر کتنے ہی لوگوں کو لاہور میں اقبال ساجد مرحوم اور ساغر صدیقی مرحوم سے پیسوں کے عوض غزلیں لکھواتے دیکھا ہے․میں ریڈیو پاکستان کے ایک دو ایسے مرحوم پروڈیوسروں کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے کسی شاعر کی غزلوں کو پہلے کمزور کہہ کر مسترد کیا اور پھر چند ماہ بعد معمولی ردو بدل سے اسی غزل کو اپنے نام سے کسی گلوکار کی آواز میں ریکارڈ کر لیا․یہاں لندن میں ایک بھارتی ریڈیو پر چند پاکستانی شاعری کے شوقین حضرات ایسے بھی ہیں جو غالب اور میر کو بھی نہیں بخشتے اور رات دو بجے کے بعد نشر ہونے والے پروگرام میں اساتذہ کے اشعار بھی اپنے ہی نام سے سُنا دیتے ہیں․یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے․یہاں بی بی سی میں ہمارے ایک سینئر ساتھی راشد اشرف نے کیا اچھی بات بتائی ہے کہ ایک انگریز مصنف کا کہنا ہے کہ اگر کسی ایک شاعر یا ادیب کی چیز لے لیں تو یہ سرقہ ہے اور اگر دو تین سے لے لیں تو یہ ریسرچ ہے․․ہا ہا ہا ہا
*************************
Date: Sat, 1 4Feb 20050 4:15:4 4EST
حیدر قریشی(جرمنی)
ہم لوگ اصل موضوع کی طرف دھیرے دھیرے آرہے ہیں۔رحیم انجان صاحب کہتے ہیں کہ لکھ کر دینے والا ضرورت مند ہوتا ہے اس لئے لکھ کر دے دیتا ہے۔کیا یہ بات صرف اتنی سی ہی ہے؟میرے خیال میں اس حوالے سے مزید اظہارِ خیال کی ضرورت ہے۔ایک جرم کا ارتکاب ہو رہا ہے اور اس جرم کا ایک اہم فریق بے قصور قرار پاجائے تو پھر اس جرم کو جرم نہیں کہنا چاہئے۔
صفدر ہمدانی صاحب نے ذاتی حوالوں سے دو دلچسپ مثالیں دی ہیں۔تاہم اس سلسلے میں چند وضاحتوں کی ضرورت ہے۔جب نام لے دیا ہے تو پھر اصل سارق کا نام بھی دینا واجب ہے۔صفدر ہمدانی صاحب کی دونوں مثالوں پر اظہارِ خیال سے پہلے اپنی دو مختلف مثالوں سے بات شروع کرتا ہوں۔میری ایک غزل’’ اوراق‘‘ میں شائع ہوئی۔کچھ عرصہ کے بعدشفیق آصف کے نام سے وہ غزل ’’تخلیق‘‘لاہور میں شائع ہوئی۔میں نے فوری طور پر ایڈیٹر تخلیق اظہر جاوید کو خط لکھا اور اوراق کا مکمل حوالہ بھی درج کردیا۔ تخلیق کا نیا شمارہ آیا تو اس میں میراخط شائع نہیں ہوا۔میں نے اگلے شمارے کے بعد پھر ایڈیٹر کو خط لکھا۔اس سے اگلا شمارہ آیا تو میرے خط کو پھر نظر انداز کردیا گیا۔میں نے پھر ایڈیٹر تخلیق کو خط لکھا اور اپنی غزل کے بارے میں تخلیق میں وضاحت شائع کرنے پر اصرار کیا۔چنانچہ تیسری بار میری وضاحت چھاپ دی گئی۔ساتھ ہی ایڈیٹر صاحب نے اپنی طرف سے ایک خفگی کا نوٹ بھی دے دیا۔اس نوٹ سے غرض نہیں۔اصل بات یہ کہ میری غزل تھی اور میرے پاس اس کا ٹھوس ثبوت تھا ۔معاملہ کسی معمولی رسالے کا نہیں تھا دو ادبی رسائل کا تھا اس لئے میں نے اپنا موقف زوردے کر شائع کرایا۔دوسری مثال ۔۔۔۔امین خیال جی نے گوجرانوالہ کے ایک اخبار میں میری متعدد تحریریں شائع کرائی ہیں ۔ایک بار ایک اخبار آیا تو اس میں کسی اور کے ماہیے میرے نام سے چھپے ہوئے تھے۔میں نے فوراَ امین خیال جی کو اس طرف توجہ دلائی۔پتہ نہیں انہوں نے اس کی تصحیح شائع کی یا نہیں۔تاہم میرے تینوں مجموعے جن میں میرے ماہیے جزوی یا کلی طور پر شامل ہیں،ان میں کہیں بھی وہ ماہیے نہیں ہیں۔اس سے دوباتیں واضح ہوتی ہیں ۔
۱۔ایڈیٹر کی نیک نیتی کے باوجود کبھی کبھار غلطی سے بھی کسی کی چیز کسی دوسرے کے نام سے چھپ جاتی ہے۔
۲۔اگر ایسا ہو تو اصل دعوے دار کو قصۂ زمین بر سرِ زمین نمٹانا چاہئے۔
اپنے تجربے کی بنیاد پر اب میرا خیال یہ ہے کہ جب آپ کی سیپ میں مطبوعہ غزل کو ٹی وی والے سیپ کے حوالے سے کسی اور سے منسوب کر رہے تھے تو آپ کا حق تھا کہ آپ فوراَ سیپ کے نسیم درانی صاحب سے رابطہ کرتے اور ان سے یا تو ٹی وی انتظامیہ کے موقف کی تردید کراتے یا اپنی غزل کی اپنے نام سے توثیق کراتے۔
اب نہ اُس سمت نظر جائے گی۔۔۔جیسے گزرے گی گزر جائے گی
آپ کی یہ غزل کس شاعر کے نام سے طاہرہ سید نے گائی؟اس کا نام لازماَ بتائیں کہ یہ کسی کی کردار کشی نہیں بلکہ ہمارے ادبی المیوں کی نشاندہی ہو گی۔اسی طرح آپ کی دوسری غزل جوجگجیت اور آصف رضا نے گائی ہے۔
سوچتا ہوں کہ اگر میں بھی پیمبر ہوتا۔۔۔پھر ہر اک ہاتھ میں ممکن ہے کہ پتھر ہوتا
اگر یہ آپ کے نام سے گائی گئی ہے تو پھر تو فکر کی کوئی بات ہی نہیں۔فوراَ نیویارک کے شاعر اور اس کے شعری مجموعہ کا نام سامنے لائیے۔تاکہ ان پر پی ایچ ڈی کا کام مکمل ہو سکے۔امید ہے دوسرے دوست بھی اس سلسلے میں بہتر مواد کی فراہمی مع شواہد کے پیش کریں گے۔اس سائبر حلقہ کے ذریعے پیش کئے جانے والا سارا مواد یہاں کے پورے حوالو ں کے ساتھ پی ایچ ڈی کے مقالے کا حصہ بنے گا۔
**********************
Date: Sat, 2 1Feb 20022 4:04:0 3-080 0(PST)
نذر خلیق (خانپور)
اردو رائٹرز پر رُکے ہوئے مباحث کے بارے میں
اردو رائٹرز پر ایک بحث رسم الخط کے حوالے سے شروع ہوئی تھی۔اگر مناسب سمجھیں تو اسے کسی ایک ای میل میں سمیٹ لیا جائے۔ چونکہ یہ بحث جدید ادب میں شامل کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے اس لئے یہی مناسب ہوگا کہ حیدر قریشی صاحب خود اسے وائنڈ اپ کر لیں۔جو بحث شائع کی جانی ہے اسے ایڈٹ کرکے اردو رائٹرز پر ریلیز کر دیا جائے تاکہ کسی حصے پر کسی دوست کو اعتراض ہو تو اس میں سے وہ حصہ بھی حذف کر دیا جائے ۔اسی طرح میرے پی ایچ ڈی کے مقالہ کے ذکر کے ساتھ جو مکالمہ شروع ہو ا تھا وہ بھی ابتدائی مرحلے میں رُک گیا ہے۔صفدر ہمدانی صاحب نے اپنی جن دو غزلوں کے سرقہ کا ذکر کیا ہے،ان کے مستند حوالہ جات فراہم کردیں۔اپنی غزلوں کے بھی اور سرقہ کرنے والوں کے بھی۔یہ میرے مقالہ کے لئے مفید ہو ں گے۔ **********************
Date: 25.02.20012 4:24:5 8
سعید شباب(خانپور)
مجھے لگتا ہے ہمارے شاعروں اور ادیبوں کا جوش اور جذبہ کچھ ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔سرقہ ، توارد اور جعلسازی کا موضوع بہت اہم ہے۔اس پر تفصیل سے مکالمہ ہونا چاہئے اور پورے حوالوں کے ساتھ بات ہونی چاہئے۔حیدر قریشی صاحب نے اپنی جس غزل کا شفیق آصف صاحب کے نام سے تخلیق میں چھپنے کا قصہ اور اپنی طرف سے وضاحت کرنے اور چھپوانے کا جو حال لکھا ہے،اس کی تفصیل اوراق اور تخلیق کے مکمل حوالوں کے ساتھ پیش کرنی چاہئے۔ورنہ بات صرف دعویٰ تک رہے گی۔دلیل کے طور پر حوالہ جات بہت ضروری ہیں۔صفدر ہمدانی صاحب نے اپنی دو غزلوں کے بارے میں جو دعویٰ کیا ہے اس کے لئے ثبوت فراہم کرنا اور سرقہ کرنے والوں کے نام بتانا ان پر واجب ہے ورنہ یہ بھی دعویٰ ہی ہو گا دلیل نہیں ہو گی۔حیدر قریشی صاحب اور صفدر ہمدانی صاحبان یہ بھی واضح کریں کہ انہوں نے اپنی مذکورہ غزلیں بعد میں اپنے کسی شعری مجموعہ میں شامل کی تھیں یا پھر ان کو شامل کرنے سے احتراز کیا؟امید ہے دونوں شعراء اس سلسلے میں مکمل تفصیل لکھیں گے جو تحقیق کی تکمیل کے لئے ناگزیر ہے ۔اور یہ بھی امید ہے کہ دوسرے لکھنے والے بھی اس موضوع پر اہم مواد پیش کریں گے۔کوشش یہی ہونی چاہئے کہ ایسے نازک موضوع پر لکھتے ہوئے تلخی پیدا نہ ہو۔
************************
اپنی غزل کے سلسلے میں وضاحت
برادرم سعید شباب کے فرمان کے مطابق وضاحتاَ عرض ہے کہ میری غزل کا مطلع تھا:
میری دھرتی سے پرے کوئی بلاتا ہے مجھے کہکشاؤں کی عجب راہ دکھاتا ہے مجھے
یہ ماہنامہ ’’اوراق‘‘لاہور شمارہ جون ،جولائی ۱۹۹۲ء میں شائع ہوئی تھی۔بعد میں ماہنامہ ’’تخلیق‘‘ لاہور کے جون ۱۹۹۴ء کے شمارے میں یہ غزل شفیق آصف صاحب کے نام سے شائع کی گئی۔میں نے فوراَ اظہر جاوید صاحب کو خط لکھا کہ یہ میری غزل ہے۔اظہر جاوید صاحب نے میرا خط شائع نہیں کیا۔میں دسمبر ۱۹۹۴ء تک ’’تخلیق‘‘کے ہر شمارے کے بعد اپنی وضاحت دوبارہ اشاعت کے لئے بھیجتا رہا۔آخر تنگ آکر اظہر جاوید صاحب نے میری وضاحت شائع کر دی۔میری وضاحت’’ تخلیق‘‘ لاہورشمارہ فروری ۱۹۹۵ء میں ان الفاظ میں شائع ہوئی :
’’تخلیق جون ۱۹۹۴ء کے شمارے میں شفیق آصف صاحب کے نام سے ایک غزل چھپی ہے ۔
میری دھرتی سے پرے کوئی بلاتا ہے مجھے کہکشاؤں کی عجب راہ دکھاتا ہے مجھے
گزارش یہ ہے کہ یہ غزل میری ہے اور ماہنامہ ’’اوراق‘‘لاہور کے شمارہ جون جولائی ۱۹۹۲ء میں چھپ چکی ہے۔جون ۱۹۹۴ء کے بعد سے اب تک تخلیق کے تین شمارے چھپ چکے ہیں لیکن شفیق آصف صاحب نے ابھی تک کوئی وضاحت نہیں کی۔خدا جانے ان کے کسی ’’مہربان‘‘نے یہ شرارت کی ہے یا خود انہوں نے ہی ’’جراٰتِ رندانہ‘‘ سے کام لیا
ہے۔ بہر حال ’’تخلیق ‘‘کے قارئین آگاہ رہیں کہ مذکورہ غزل میری ہے‘‘اتنی بے ضرر سی وضاحت چھپوانے کے لئے مجھے تین بار تخلیق کے ایڈیٹر اظہر جاوید صاحب کو خط لکھنا پڑا تب انہوں نے کسی قدر برہمی کے ساتھ میری یہ وضاحت شائع کر دی۔میں رسم الخط والے مسئلہ پر بحث کو بس اب ایک دو روز میں ہی سمیٹنے والا ہوں اور اسے جدید ادب میں شائع کرنے سے پہلے اردو رائٹرز کی خدمت میں پیش کروں گا ۔کسی دوست کو اس ساری بحث کے مسودے پریا اس کے کسی حصے پر اعتراض ہو ا اور وہ اعتراض مناسب ہو ا تو اس بحث کو مزید ایڈٹ کر لیا جائے گا۔حیدر قریشی(جرمنی)
***********************
ذاتی خط صفدر ھمدانی صاحب کی توجہ کے لئے!
محترم ھمدانی صاحب آپ نے اردو رائٹرز یاہو گروپس پر ایک لیٹر کے ذریعے اپنی دو غزلوں کے سرقہ کی بات کی تھی۔۔۔۔آپ کی یاد دہانی کے لئے آپ کا خط اس خط کے ساتھ بھیج رہا ہوں۔۔۔۔۔ براہ کرم میرے مقالہ کے لئے تعاون فرمائیے اور اس شاعر کا نام بتائیے جن کے نام سے آپ کی غزل پی ٹی وی نے چلا دی۔نیز کیا آپ نے اپنے طور پر نسیم درانی صاحب ایڈیٹر سیپ سے رابطہ کیا تھا کہ انہوں نے آپ کے نام سے چھاپی غزل کو کسی دوسرے شاعر کی غزل ہونے کی تصدیق کیوں کر دی؟در اصل حال ہی میں شمس الرحمن فاروقی کے رسالہ شب خون میں بھی سہواَ ایسا ہو گیا کہ شاعری کسی اور کی تھی چھپ کسی اور کے نام سے گئی۔اس لئے ایسے واقعات کی موجودگی میں آپ کی طرف سے ایڈیٹر سیپ سے رابطہ ہوا ہو اور ان کی طرف سے آپ کو کوئی جواب ملا ہو تو اس کی بابت بھی بتائیے گا۔خاص طور پر اس لئے بھی کہ وہ اب اردو فورم سے تھوڑے بہت باخبر رہتے ہیں۔آپ کی وضاحت کے بعد ان سے بھی بات کی جا سکتی ہے۔مزید نیویارک کے اس شاعر کا نام اور ان کے مجموعے کا نام بھی بتا دیجئے جنہوں نے آپ کی غزل اڑا لی۔۔مجھے اس سے کافی سہولت ہو جائے گی۔ والسلام نیک تمناؤں کے ساتھ نذر خلیق ۲؍اپریل ۲۰۰۴ء
**********************************************************
رقص کناں ہے جس کے اندر ازل، ابد کا مور
وہ ہے اک بے انت خلا سا جس کی اور نہ چھور
اک دل کا پھیلا صحرا خاموشی سے معمور
اک کم ظرف سمندر جس میں خالی خولی شور
(حیدر قریشی)